30 دسمبر ، 2017
لندن: میٹروپولیٹن پولیس نے ایک پاکستانی نوجوان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کے بچوں کی تصاویر کھینچنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے اور اسے جیل بھی جانا پڑسکتا ہے۔
جنگ اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ انتباہ حسن نواز کے 5 اور 10 سالہ بچوں کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد دیا گیا ہے۔
بچوں کی تصاویر 6 اگست 2017 کو آن لائن پوسٹ کی گئی تھیں، جس کے بعد حسن نواز کی جانب سے ملینرز وے لوٹن کے رہائشی شہباز ایوب قریشی کے خلاف شکایت درج کرائی گئی، جس پر پولیس کی کارروائی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
شکایت کے مطابق شہباز ایوب قریشی نے حسن نواز کے بیٹوں کی تصاویر اُس وقت لی تھیں جب حسن نواز موریسن سپر مارکیٹ میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ شاپنگ کررہے تھے۔
بعد میں یہ تصاویر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کردی گئیں، یہ تصاویر کم از کم 2 ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا کے درجنوں اکاؤنٹس پر بچوں کے والدین کی اجازت کے بغیر نشر کردی گئیں، جو کہ انگلینڈ اور ویلز میں 16 سال سے کم عمر بچوں کے تحفظ کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔
تفصیلات کے مطابق 6 اگست 2017کو جب حسن نواز اور ان کے بیٹے موریسن میں شاپنگ کر رہے تھے تو نوجوان شہباز ایوب قریشی ان کے پاس آیا اور ان سے باتیں کرتے ہوئے بدتمیزی کرنے لگا اور ان کے بیٹوں کی تصاویر کھینچ لیں جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو فوٹیج میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ابتدا میں بات چیت دوستانہ تھی لیکن 10 سیکنڈ بعد ہی ایوب قریشی نے حسن نواز سے بدتمیزی شروع کردی اور ان کی تصاویر بنالیں اور ایسی جگہ غائب ہوگیا جہاں عملہ ہی جاسکتاتھا۔
بعدازاں سوشل میڈیا پر بچوں کی فوٹیج دیکھنے کے بعد حسن نواز نے پولیس کواطلاع دی جس میں بچوں اور خود حسن نواز کے اپنے بارے میں بھی تشویش کااظہار کیا گیا۔
پولیس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سپر مارکیٹ میں نجی شاپنگ کے دوران حسن نواز بجا طور پر اپنی پرائیویسی کی توقع رکھتے تھے اور انھیں اس بات کی کوئی توقع نہیں تھی کہ فلم ریکارڈنگ کی جائے گی اور آن لائن شائع کردی جائے گی جبکہ بچوں کی تصاویر بنانے پر ہراسمنٹ ایکٹ 1998کے تحت مجرمانہ کارروائی ہوسکتی ہے اور اس پر سرسری سماعت پر سزا دی جاسکتی ہے۔
دوسری جانب شہباز قریشی نے حکام کو تحریری یقین دہانی کرائی ہے جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ حسن نواز کے بچوں کی فوٹیج ان کے والدین کی مرضی کے بغیر شائع کرنا غلط ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ انگلینڈ اور ویلز کے قانون کے خلاف بھی ہو۔
شہباز قریشی کا کہنا تھا، 'میں حسن نواز اور ان کی فیملی کے کسی فرد سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کروں گا اور میں اپنے اس عمل پر حسن نواز اور ان کی فیملی سے معذرت خواہ ہوں'۔
شہباز ایوب قریشی نے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر حسن نواز کے بچوں کی ان کے والدین کی مرضی کے بغیر تصاویر بنائی تھیں اور انھیں سوشل میڈیا پر جاری کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا، 'مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ غیر قانونی کام تھا، میں نے اپنے سوشل میڈیا سے فوٹیج فوری طور پر ہٹادی ہیں اور کم وبیش ایک درجن ویب سائٹ سے رابطہ کرکے ان بچوں کی فوٹیج کو ہٹانے کو کہا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرا یہ عمل غلط تھا اور میں نے اس سے سبق سیکھ لیا ہے'۔
دوسری جانب حسن نواز نے کہا کہ شہباز قریشی کی تحریری معافی کے بعد کوئی ذاتی رنجش نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سیکڑوں بار میری ویڈیو بنائی گئی اور مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن بچوں کو عوام کی نظروں اور سیاست کی لڑائی سے دور رہنا چاہیے'۔
حسن نواز کا مزید کہنا تھا کہ لوکل گورنمنٹ کونسل اسکولوں کو چلانے اور بچوں کی بہبود کی ذمےدار ہے اور ان کے بچوں کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لوکل گورنمنٹ نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔