پاکستان
Time 01 جنوری ، 2018

’ٹرمپ کی ٹوئٹ پاک امریکا تعلقات کے لیے تباہ کن تبدیلی‘

سینئر تجزیہ کار طلعت حسین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے حوالے سے ٹوئٹ کو پاک امریکا تعلقات کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔

"امریکی صدر کا ٹوئٹ ایک پالیسی ٹوئٹ ہے، امریکی صدر اگرچہ خواہ مخواہ کے ٹوئٹس بھی کرنے کی عادی ہیں لیکن اس قسم کے ٹوئٹ کے پیچھے ایک باقاعدہ ٹائمنگ پہلے سے طے کی جاتی ہے کہ ہم نے کس دن یہ ٹوئٹ کرنا ہے۔ 2018 ء کے آغاز کے ساتھ یہ ٹوئٹ سامنے آیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ وہ 2018 ءکے آغاز کو ایک پالیسی کی تبدیلی کے آغاز کے طور پر لے رہے ہیں اور تبدیلی پاکستان امریکی تعلقات کے حوالے سے تباہ کن قسم کی تبدیلی ہے۔"

ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور تجزیہ کار طلعت حسین نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خارجہ دفاعی پالیسی کا چیلنج سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اب اس ٹوئٹ کے دو حصے ہیں۔ ایک امریکی صدر نے پاکستان کو دی جانے والی امداد کی بات کی کہ 15 برسوں کے دوران پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کرانا بیوقوفی تھی جو گزشتہ امریکی صدور کرتے رہے ہیں جس کے جواب میں پاکستان نے ہمیں بے وقوف بنا کر دھوکا دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا رہا ہے جو ان کے مطابق افغانستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان نے ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ سیکڑوں مرتبہ بیانات دیئے ہیں لیکن وہ امریکی حکومت کے خیالات کو پاکستان کے بارے میں تبدیل نہیں کر سکا۔ اب صورتحال بہت خطرناک ہے لیکن کیا ہم اس وقت امریکا کو یہ باور کرواسکتے ہیں کہ جو بات وہ کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے؟

طلعت حسین کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اس کا وقت گزر چکا ہے، جب امریکی صدر کی جانب سے اس قسم کا ٹوئٹ آتا ہے تو ہمیں ذہنی طور پر اور عملی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ اس کے بعد ہوسکتا ہے کہ جلدہی وہ عملی اقدامات بھی اٹھائیں کیونکہ امریکا بہت مشکلات میں پھنسا ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ کے آخری دو الفاظ " نو مور " سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے پالیسی لائن ڈرا کر دی ہے اور اب عملاً کوئی ایکشن ہو سکتا ہے، تو میرے خیال میں ہمیں ذہنی اور عملی طور پر امریکا کی طرف سے کسی مہم جوئی کی تیاری بھی کرنی چاہیے۔

سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ان کے خیال میں ہمیں اب کچھ سمجھ آجانی چاہیے کہ سعودی عرب میں شہباز شریف اور نواز شریف کیا کر رہے ہیں۔ تین مہینے قبل جب اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوئی تھی اور امریکا کی طرف سے دھمکیاں آرہی تھیں تو پاکستان کے معتبر اداروں کے لوگوں نے تقریباً گیارہ ممالک کے صدور اور وزراء سے بات کی تھی، تب کہیں امریکا نے اپنا ہاتھ روکا تھا جس میں سعودی بادشاہ بھی شامل ہیں۔ شاید شہباز شریف اور نواز شریف کی سعودی عرب میں موجودگی این آر او سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس ممکنہ ہنگامے سے متعلق ہے جو امریکا کی جانب سے اچانک مہم جوئی کی صورت میں ہونے کا خدشہ ہے۔ صورتحال یقیناً خطرناک ہے اور ٹوئٹ سامنے آگیا ہے اس کے بعد ہمیں عملاً کسی مہم جوئی کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔

تاہم طلعت حسین کا کہنا تھا کہ بات چیت کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کر کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں۔ لیکن ایسا ضرور ہے کہ یہ ٹوئٹ امریکی دھمکی آمیز رویے کو نکتہ انتہا پر لے گیا ہے۔ جب امریکا کا صدر اس قسم کا بیان جاری کرتا ہے تو بنیادی طور پر حتمی پالیسی فیصلہ جاری کررہا ہوتا ہے، اس حد تک تو معاملات یقیناًخطرناک ہیں تاہم سفارتی ذرائع کھلے ہیں، دروازے کھلے ہیں، پاکستان تنہا نہیں ہے، پاکستان کے دوست ممالک کافی ہیں اور ہم نے ان کو بھی معاملے سے آگاہ کیا ہوا ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان کے میزبان نے کہا کہ مجھے دو اہم شخصیات نے بتایا کہ ہمیں اس پالیسی کا ادراک 48 گھنٹے پہلے تھا اور ہم نے دنیا کے کچھ اہم ممالک سے اپنی سفارتکاری تیز کی ہے اور امریکا کو بتایا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر کسی قسم کی مہم جوئی بالخصوص جس کا حصہ ہندوستان ہو یا ہندوستان کی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہو اس کو قبول نہیں کریں گے اور پاکستان کا ا مریکا سے ہر قسم کا تعاون ختم ہو جائے گا اور اس کے اہم اثرات ہوں گے۔

اب رہا سوال یہ کہ اس صورت حال میں پاکستان کو کیا کرنا ہے؟ تو میں نے پہلے بھی گزارش کی کہ ذہنی اور عملی طور پر ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے ردعمل کا انتظار نہ کرے اور امریکا کے اندر ایک باقاعدہ فیصلہ طے ہو چکا ہو کہ پاکستان کے کس حصے میں اسٹرائیک کرنی ہے، ممکن ہے وہ شہر کے گنجان آباد علاقے کے اندر کوئی ڈرون اسٹرائیک کریں یا اس کو کلیم کریں، یا پاکستانی سرحد کے ساتھ کریں۔ 

جہاں تک حافظ سعید کے اثاثے قومی تحویل میں لینے کا معاملہ ہے وہ خبر بھی اسی وقت سامنے آئی ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے کام کرنے کی کوشش کی ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ اگر امریکا بار بار یہ بات کر رہا ہے اور باوجود ہم اپنی تمام تر بہترین سفارتکاری کے امریکا سے طویل المدت اعتماد قائم نہیں کر پارہے تو ہمیں ہر قسم کے ہیجانی واقعات کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

رہا یہ سوال کہ ہم کس قسم کی تیاری کر سکتے ہیں یا یہ کہ ہم کیا کرپائیں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ اس معاملے پر بات کر چکے ہیں۔ پاکستان کی فضائیہ کے سربراہ اس پر بات کرچکے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر امریکی ڈرون پاکستان کے اندر آیا تو ہم اس کو مار گرائیں گے۔ پہلے اسامہ بن لادن کا واقعہ ہوا تھا لیکن اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔انہوں نے بھی اپنی ریڈلائنز ڈرا کی ہوئی ہیں۔

سعودی ولی عہد نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ایک طویل قسم کا تعلق قائم کرلیا ہے اور اگر سعودی عرب اس معاملے میں کردار ادا کرتا ہے تو پھر ظاہر ہے وقتی طور پر امریکا کا کوئی پلان ہے تو ہ رک جائے گا لیکن امریکی دباؤ میں کمی نہیں آئے گی، جو کچھ وہ کہتے ہیں ہمیں ان پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ 

طلعت حسین نے کہا کہ ملک میں یہ بڑی ہی مشکل صورت حال پیدہ ہوئی ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک ایسے وقت میں یہ صورت حال پیدا ہوئی جب کسی بھی سیاسی جماعت یا اسٹیبلشمنٹ کی ان معاملات پر توجہ نہیں تھی۔ ڈیڑھ ماہ پہلے اسلام آباد کے محاصرے کی حالت تھی اور ہماری توجہ کس طرف تھی؟ ٹی وی پر کیا بحث ہورہی تھی جب یہ تمام واقعات ڈویلپ ہورہے تھے؟ ٹوئٹ کے بعد سب کو یکدم خیال آگیا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے حالانکہ اس کو بنتے ہوئے چھ آٹھ مہینے ہوگئے ہیں لیکن صورت حال بہت خراب ہے اور اس میں کوئی حل دستیاب نہیں، ماسوائے یہ کہ ہمیں ذہنی اور عملی طور پرتیار رہنا چاہیے اور سفارتی ذرائع کے استعمال کو تیز کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی ہمیں امریکا کی طرف سے جو بات کی جارہی ہے اس پر دوبارہ سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرح زیادہ بہتر انداز سے اپنی حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں جس کو امریکا میں پذیرائی ملے، اور ہم دنیا کو بتاپائیں کہ ہم نے یہ اقدامات اٹھائے ہیں۔

پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں طلعت حسین نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا دنیا کو ساتھ لے جانے کا قائل نہیں ہے اور اکثر پالیسی معاملات میں وہ اپنی جماعت ری پبلکنز کو بھی ساتھ لے کر نہیں چلتے۔ ٹرمپ کو دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت نہیں ہے اور امریکا پاکستان کو تنہا کرنے کے لئے آٹھ دس ممالک کو ملانے کی کوشش نہیں کرے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے اردگرد کے ممالک پہلے ہی پاکستان کے خلاف دانت تیز کررہے ہیں انہوں نے چھریاں کانٹے نکالے ہوئے ہیں، ایک طرف ہندوستان ہے جس کا رویہ ہمیں دوبارہ باور کرانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کس طرح کا ہے، ظاہر ہے وہ ہمارا دشمن نمبر ایک ہے۔ دوسری طرف افغانستان ہے جس کی گزشتہ برسوں کی بہترین ڈپلومیسی کے باوجود ایک ہی تان ہے کہ پاکستان سے جو گروپس آپریٹ کرتے ہیں وہ افغانستان کے اندر بدامنی اور دہشتگردی کا باعث بنتے ہیں۔

ایران کے ساتھ ہم نے تعلقات کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی ہے اور ایران تھوڑا بہتر نظر آتا ہے، ورنہ سعودی عرب کی سربراہی میں بنے اتحاد اور وہاں راحیل شریف کی موجودگی سے ایران کو شدید غصہ تھا۔ پاکستان کے پڑوسی ممالک میں چین کے علاوہ کوئی دوستانہ نظر نہیں رکھتے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر پاکستان کے خلاف ایکشن لینا ہے تو وہ ازخود ایکشن لے گا اور امریکا کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ امریکا اس سے پہلے بھی یہ کر چکا ہے۔ وہ سینکڑوں ڈرون حملے کر چکا ہے۔ ہر ڈرون حملے کے بعد ہم یہی کہتے تھے کہ بُری مثال قائم ہو رہی ہے۔

امریکا ٹرمپ کے نیچے ایک بے قابو بھینسے کی طرح ہے، جس طرف رخ کرلیا اس طرف ٹکر مارنی ہے، اب وہ پاکستان کو ٹکر مارنے کی دھمکی دے رہا ہے اور اس کی تیاری وہ ایک سال سے کررہا ہے۔

ہمارے بحث کرنے اور رپورٹنگ کرنے کا مقصد یہ باور کروانا ہے کہ ہمارے پاس وقت تھا جو ہم نے بے مغز قسم کی سیاست میں ضائع کیا، جسے ہم نے پولیٹیکل انجینئرنگ اور ذاتی انا میں ضائع کیا، یہ خطرناک صورت حال تھی جو ہمارے سر کے اوپر تلوار کی طرح لٹکی ہوئی تھی اور ہم نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔

آج بھی تحریک انصاف کے ترجمان سعودیہ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ شخصیات کے ساتھ دوستی نہ رکھیں آپ ملکوں کے ساتھ دوستی رکھیں، مفروضہ یہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا تعلق نواز شریف یا شہباز شریف کو بچانے کا ہے، کسی کا زاویہ قومی افق پر نہیں اور یہ پاکستان کی اندرونی کمزوری ہے۔

اس وقت ہمیں مایوسی نہیں پھیلانی چاہیے بلکہ خطرہ بھانپتے اور جانچتے ہوئے ہمیں بتانا چاہیے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے، اگر ٹرمپ ڈیڑھ دو مہینے اپنے ایکشن مؤخر کرتا ہے تو ہمیں سنجیدگی سے ٹیبل پر واپس جانا چاہیے۔ امریکا کی طرف سے جو باتیں کی جارہی ہیں ان میں سےکس کس پر ہم اپنا قومی مفاد کی حفاظت کرتے ہوئے عملدرآمد کرسکتے ہیں اس طرح کے ہم دنیا کو بھی مطمئن کر پائیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔

مزید خبریں :