,
Time 10 جنوری ، 2018
پاکستان

بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے جوڑ توڑ کا آغاز

فوٹو: فائل

کوئٹہ: بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ کے لیے جوڑ توڑ کا آغاز ہوگیا اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی دو نام سامنے آگئے تاہم اپوزیشن نے برتری ظاہر کی تو انہیں وزیراعلیٰ کا امیدوار لانے کی پیشکش کی جائے گی۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور  مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کے درمیان ملاقات کے دوران فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ کے لئے اپوزیشن جماعتیں برتری ثابت کرنے میں کامیاب ہوئیں تو وزارت اعلیٰ کے لئے انہیں پیشکش کی جائے گی۔ 

وزیراعظم اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اسمبلی توڑنے کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیراعلیٰ کے لئے سردار صالح بھوتانی اور جان محمد جمالی کے نام سامنے آئے ہیں تاہم جان محمد جمالی نے جیو نیوز کے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے اگلے وزیراعلیٰ کا فیصلہ نواز شریف کی مرضی سے نہیں بلکہ ہم خود کریں گے۔

خیال رہے کہ سردار صالح بھوتانی 2013 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی 45 لسیبلا 2 سے کامیاب ہوئے تھے جنہیں پارٹی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ پارٹی کی بڑی تعداد ان کے وزیراعلیٰ بننے کی حامی ہے۔

جے یو آئی اور اتحادیوں کا فیصلہ

وزیراعلی بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری کے مستعفی ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، بی این پی (مینگل )، بی این پی (عوامی )، اے این پی، مجلس وحدت المسلمین اور جمعیت علمائے اسلام کے دو الگ الگ اجلاس رات گئے تک جاری رہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاسوں میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیا وزیراعلیٰ متفقہ طور پر نامزد کیا جائے گا جس کے لئے یہ فارمولہ طے کیا گیا ہے کہ آئندہ وزیراعلیٰ مسلم لیگ (ن) سے ہی ہوگا تاہم اس کی نامزدگی میں مسلم لیگ کی مرکزی قیادت سے مشاورت کی جائے گی اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ متفرق اجلاسوں میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان کی اتحادی جماعتیں ہی مل کر نئے وزیراعلیٰ کا فیصلہ کریں گی اور اس ضمن میں کسی بھی قسم کی جلد بازی کے بجائے مشاورت اور اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

فارمولے کے تحت متفقہ نامزدگی کے لئے مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) مل کر دو نام تجویز کریں گی جبکہ تحریک عدم اعتماد کی دیگر جماعتیں بھی مل کر مسلم لیگ سے ہی دو نام تجویز کریں گی پھر ان ناموں پر تمام اتحادی جماعتیں مل کر حتمی فیصلہ کریں گی۔ 

ثناءاللہ زہری کے مستعفی ہونے کے بعد جان جمالی، میر سرفراز بگٹی، میر عبد القدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی مضبوط امیدواروں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

نواب ثنااللہ زہری کا استعفیٰ:

اپوزیشن اور مسلم لیگ (ن) کے باغی ارکان کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے کے خدشے کے پیش نظر نواب ثناءاللہ زہری نے وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کو لکھے گئے استعفے کے مختصر متن میں انہوں نے عہدہ چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ 

نواب ثناءاللہ زہری کا بیان:

استعفیٰ دینے کے بعد اپنے بیان میں نواب ثناءاللہ زہری نے کہا کہ ‘ محسوس ہورہا ہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے صوبے کی سیاست خراب ہو اور خواہش ہے کہ صوبے میں سیاسی عمل جاری رہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنا میرا شیوہ نہیں، میں زبردستی اپنے ساتھیوں پر مسلط نہیں ہوناچاہتا، اقتدار آنے جانے والی چیز ہے، عوام نے مناسب سمجھا تو میں ان کی خدمت جاری رکھوں گا‘۔

بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد تحریک کی تاریخ

1970 میں بلوچستان ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بحیثیت صوبہ وجود میں آیا اور 1972 میں پہلی صوبائی اسمبلی تشکیل دی گئی اور اس وقت سے لے کر آج تک تین بار وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوچکی ہے۔

ان وزرائے اعلیٰ میں میر تاج محمد جمالی مرحوم، سردار اختر جان مینگل اور نواب ثناء اللہ خان زہری شامل ہیں۔

میر تاج محمدجمالی اور سردار اختر جان مینگل کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع ہوئی تو وہ فوری طور پر وزارت اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوگئے جب کہ نواب ثنااللہ زہری نے بھی ایسا ہی کیا۔

مزید خبریں :