کیا (ن) لیگ تاریخ کو شکست دے سکتی ہے؟

اگر آپ 1970 کےبعد سے پاکستان کےانتخابات کی تاریخ اور انتخابات کے رجحانات پر نظر ڈالیں تومجھے نہیں لگتا ہے کہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) واپسی کرے گی۔ 

کیا پی ایم ایل(ن) یا شریف برادران الیکشن 2018 میں تاریخ بدل سکتےہیں؟ گزشتہ 40سال میں کوئی بھی سیاسی جماعت کسی بھی وجہ سے مسلسل انتخابات نہیں جیت سکی۔ 

لہٰذا اگر تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تواعدادوشمار نہایت واضح ہیں اور اسی لیے یہ کام پی ایم ایل(ن) کیلئے مشکل ہےاور وہ بھی ایسے وقت میں جب اس کا مرکزی رہنما نااہل ہو چکا ہے۔ 

اب یہ ایک مختلف کہانی ہے کہ کس طرح پارٹیوں کو دوسری بار فتح حاصل کرنےسے روکا جاتاہے اور میں اس پربات کروں گا اور دیکھوں گا کہ کس طرح پارٹیوں اور رہنماؤں کو ممکنہ فتوحات سے محروم کیا جاتا ہے لیکن پہلے زمینی حقائق پر نظر ڈالتیں ہیں۔ 

جو کچھ بلوچستان میں ہوا وہ پی ایم ایل(ن) کی آنکھیں کھلنےکیلئےکافی ہے، جہاں ایک ہی رات میں انھوں نے پارٹی کھودی، ایسا ایک بار پنجاب اسمبلی میں 90 کی دہائی میں ہواتھا۔ پی ایم ایل بلوچستان میں سینٹ الیکشن دو ماہ قبل ہی تقریباً ہار چکی ہے۔ اگرچہ کاغذات میں پی ایم ایل(ن) تاحال وہاں ہے لیکن صرف کاغذات میں ہی ہے۔ 

اس کا مطلب ہے کہ مارچ میں ہونے والےانتخابات میں یہ پہلے ہی وہ گیارہ سینیٹرز ہارچکی ہے جنہیں منتخب ہوناتھا۔ اب اگلے انتخابات کون جیتےگا اور کون اگراگلی حکومت بنی تو کون بنائےگا۔ پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان پُراعتماد ہیں کہ ان کی پارٹی اگلی حکومت بنائے گی جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری آئندہ وزیراعظم کیلئے بلاول بھٹو کی پیش گوئی کرچکے ہیں۔

1970 میں پہلی بار پارٹی بنیاد اور ایک شخص- ایک- ووٹ پر انتخابات کا اہتمام کیاگیا۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی، پی پی پی جس نے مغربی پاکستان میں انتخابات جیتے تھے انھوں نے حکومت بنائی۔ 1977 میں دھاندلی کے الزامات کے باعث انتخابات کوکالعدم قراردے دیاگیا اور مارشل لاء نافذ کردیاگیا۔ 

1985 میں غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات منعقد ہوئے لیکن انتخابات سے پاکستان مسلم لیگ کا جنم ہوا اور محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے۔ ان کی حکومت کالے قانون 2-58 (B) کے تحت ختم کردی گئی اور طویل مدت تک حکمرانی کرنے والے جنرل ضیاء الحق کی موت تک انتخابات نہیں کرائے گئے۔

1988 میں دوبارہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئےاور پی پی پی انتخابات جیت گئی اور عبوری حکومت نے اقتدارانھیں منتقل کردیا۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں لیکن 1990 میں صرف 22 ماہ کے اندر ہی اسی قانون کے تحت ان کی حکومت بھی برطرف کردی گئی اور نئے انتخابات کرائے گئے۔ 

1990 میں پی ایم ایل (ن) کو فاتح قرار دیا گیا اور پہلی بارمیاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب سے وزیراعظم بن گئے۔ 1993 میں ان کی حکومت بھی اسی کالے قانون کاشکار بن گئی اورایک اور عبوری حکومت کی نگرانی میں انتخابات کرائے گئے۔ 1993 میں پی پی پی دوبارہ اقتدار میں آگئی اور بے نظیربھٹو دوسری بار وزیر اعظم بن گئیں لیکن انھیں بھی اُسی بحران کا سامنا کرناپڑا اور اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی نکلا۔ 

1996 میں ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے کئی ہفتوں بعد مرحوم صدر فاروق لغاری نے اُسی قانون (B) 58-2کے تحت انھیں برطرف کردیا۔ 1996 میں عبوری حکومت کے تحت ایک اور الیکشن کرائے گئے اور پہلی بار پی ایم ایل(ن) نے دوتہائی اکثریت حاصل کی جب کہ قومی اسمبلی میں پی پی پی کی 18 سیٹیں رہ گئیں۔ 

12 اکتوبر 1999 کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جنرل (ر) پرویز مشرف کی برطرفی اور جنرل ضیاءالدین بٹ کی تعیناتی کے بعد فوج نے اقتدارسنبھال لیا اور فوج مشرف کی وفادار رہی اور نواز شریف کو گھر بھیج دیاگیا۔ 2002 میں ایک اور الیکشن ہوئے لیکن پہلی باربےنظیر بھٹواور نواز شریف مائنس ہوئے۔ پی پی پی واحد بڑی جماعت بن کر سامنے آئی لیکن مشرف کی زیرقیادت حکومت نے اقتدار اُن کے حوالے نہیں کیا۔ اس کی بجائے ایک نئی پارٹی پی ایم ایل(ق) بنائی گئی اور محمد خان جمالی وزیراعظم بن گئے۔ 

مشرف کے دورِ حکومت کے دوران جمالی کو شوکت عزیز سے بدل دیا گیا۔ 2007 میں مشرف نےنئے انتخابات کرائےجو بے نظیر بھٹو کی شہاد ت کےبعد 2008 میں منعقد ہوئےتھے۔ پی پی پی نے انتخابات میں فتح حاصل کی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے جبکہ آصف علی زرداری صدر بن گئے اور مشرف نے اقتدارچھوڑدیا۔ 

1970 کے بعد 2013 میں پہلی بار کسی جماعت نے مکمل مدت پوری کی اور حکومت اور اپوزیشن کی رضامندی سےانتخابات عبوری حکومت کے تحت منعقد ہوئے۔ پی ایم ایل(ن) نے انتخابات میں فتح حاصل کی اور نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ اب پی ایم ایل(ن) اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہےاور انتخابات شیڈول کے مطابق جولائی 2018 میں منعقد ہوں گے اور اگر ہم مذکورہ بالا رجحان کودیکھیں تو یہ واضح ہوگا کہ وجہ جو بھی ہو کسی بھی پارٹی نے مسلسل دو بار انتخابات نہیں جیتے۔ 

یہ سمجھنےکے لیے ایک سے زیادہ شواہد موجود ہیں کہ 1985 کے بعد سے انتخابات میں کس طرح ہیرا پھیری کی جاتی رہی ہے، غیر جماعتی بنیادوں پر ہونےوالے انتخابات سیاست کو غیرسیاسی کرنے کا ایک اقدام تھا۔ ان میں سے چند انتخابات میں انٹلیجنس ایجنسیوں نے بھی کرداراداکیا اور معاملہ اعلیٰ عدالتوں تک بھی گیا۔ 

اگر 1993 میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت کی تحلیل کوغیرقانونی قراردیا تو اس نے یہ بھی قراردیاکہ 1990 کے انتخا با ت میں دھاندلی کی گئی تھی۔ انتخابات کے طے شدہ رجحانات کی روشنی میں پی ایم ایل(ن) مشکل میں نظر آتی ہے لیکن نواز شریف کی موجودگی کے باعث کم از کم پنجاب میں یہ تاحال متحد ہے۔ جبکہ پی ایم ایل (ن) اور نااہل اور برطرف وزیراعظم نواز شریف تاریخ رقم کرنے کیلئے پُراعتماد ہیں۔ اب صرف انتظار کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ وہ تاریخ بدل سکتے ہیں اور انتخابات جیت کر نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں یا گزشتہ رجحان ہی جاری رہے گا۔

سینئر صحافی مظہر عباس کا تجزیہ 15 جنوری کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا