پاکستان
Time 25 جنوری ، 2018

زینب کے قاتل عمران کے بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات جے آئی ٹی کے سپرد

قصور میں 7 سالہ زینب و دیگر بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم محمد عمران کے حوالے سے نئے انکشافات سامنے آئے ہیں کہ اس کے متعدد بینکوں میں اکاؤنٹس موجود ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم محمد عمران کے متعدد بینکوں میں اکاؤنٹس ہیں جن میں فارن کرنسی اکاؤنٹس بھی شامل ہیں، جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس خبر کا نوٹس لے لیا ہے۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے زینب قتل کیس میں ملوث ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے ایک میڈیا میں چلنے والی خبروں میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ہدایات جاری کردی ہیں اور کہا ہے کہ اس حوالے سے فوری رپورٹ پیش کی جائے۔

وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ہدایت پر پنجاب حکومت نےاس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق زینب قتل کیس کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی پولیس کی سربراہی میں پہلے سےقائم جے آئی ٹی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نمائندے اور ڈی جی فرانزک سائنس لیبارٹری کوبھی شامل کرلیا گیا ہے۔

نوٹیفکیشن میں جے آئی ٹی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایک میڈیا ہاؤس کے پروگرام میں لگائے گئےاس الزام کی تحقیقات کرکے رپورٹ دے جس میں کہا گیا ہے کہ ملزم عمران کے متعدد بینکوں میں اکاؤنٹس ہیں جن میں فارن کرنسی اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔

علاوہ ازیں پولیس کے سامنے زینب کے قاتل کے انکشافات کا سلسلہ جاری ہے، ملزم نے بچیوں سے زیادتی اور قتل کرنے کے تمام مقامات کی نشاندہی کردی ہے۔

ملزم محمد عمران  نے کہا ہے کہ اس جرم میں نہ کوئی سہولت کار تھا نہ کوئی ساتھی اور نہ ہی اس نے کسی بینک میں کبھی کوئی اکاؤنٹ کھولا۔

بچوں کے ساتھ زیادتی میں مضبوط اور منظم گروہ کے آثار مل رہے ہیں،عمران خان

[embed_video2 url=http://stream.jeem.tv/vod/67f56dc8b615791f1c55cbaa38e2c5ea.mp4/playlist.m3u8?wmsAuthSign=c2VydmVyX3RpbWU9MS8yNS8yMDE4IDQ6NDI6MDQgUE0maGFzaF92YWx1ZT04dnc1NlpBSE5GMmdOREdVT21tMjhBPT0mdmFsaWRtaW51dGVzPTYwJmlkPTE= style=center]

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ زینب کے قاتل محمد عمران کے بے شمار بینک اکاؤنٹس کی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقتور لوگ اس گھناؤنے کھیل میں ملوث ہیں۔

عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے بعد بچوں کے ساتھ زیادتی میں مضبوط اور منظم گروہ کے آثار مل رہے ہیں۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ملزم کے متعدد بینک اکاؤنٹس سے متعلق خبریں منظر عام پر آنے کے بعد یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں طاقتور لوگ ملوث ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ رانا ثناء اللہ نے قصور ویڈیو اسکینڈل کیس میں بے شرمی کا مظاہرہ کیا اور اسے زمین کا جھگڑا قرار دے کر بند کرا دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک مضبوط جے آئی ٹی زینب قتل کے ملزم کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے انکشافات کے ساتھ قصور کے ویڈیو اسکینڈل کی بھی تحقیقات کرے۔

عمران خان نے کہا کہ جس طرح سے ملزم محمد عمران کے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے تضاد پیدا کیا جا رہا ہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ہمیں سنسنی خیزی پھیلانے سے باز رہتے ہوئے معتبر جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ ننھی زینب اور قصور کے دیگر بچوں کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعات کی تحقیقات کر سکے۔

رانا ثناء اللہ کی عمران خان کے الزامات کی تردید

عمران خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یقیناً چیئرمین تحریک انصاف کو کسی نے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے بتایا ہو گا جس پر انہوں نے اعتبار کر لیا، خان صاحب پہلے بھی اس طرح کرتے رہے ہیں۔

رانا ثناء اللہ نے زینب قتل کیس کی جے آئی ٹی میں اسٹیٹ بینک اور نیب حکام کو شامل کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے الزمات بے بنیاد اور سیاسی نوعیت کے ہیں۔

صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ اگر عمران خان کے پاس وقت ہے تو وہ قصور ویڈیو اسکینڈل کی جے آئی ٹی رپورٹ ضرور پڑھ لیں، عمران خان الزام لگاتے ہیں لیکن جب غلط ثابت ہوتا ہے تو معذرت بھی نہیں کرتے۔

زینب قتل کیس میں وفاقی وزراء اور اہم شخصیات کے ناموں کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ زینب قتل کیس میں گرفتار ملزم محمد عمران اکیلا ہی اس میں ملوث ہے اور اس واقعے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔

اکاؤنٹس کی موجودگی کا دعویٰ سراسر غلط ہے، بینک حکام

بعض میڈیا سیکشنز کم سن بچی زینب کے قاتل کے 37 بینک اکاؤنٹس موجود ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس کا نوٹس لیا جبکہ شہباز شریف نے انکوائری کا حکم دے دیا،عمران خان بھی معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن بعض بینکوں کے حکام کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر آنے والا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔

مختلف بینکوں کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے بینکوں میں ملزم محمد عمران کا کوئی اکاؤنٹ نہیں، سوشل میڈیا پر چلنے والی فہرستیں مختلف بینکوں میں چیک کیے گے ملزم محمد عمران کے شناختی کارڈز کا ’لاگ ڈیٹا‘ ہے۔

گزشتہ شب میڈیا کے بعض سیکشنز پر زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم محمد عمران کے حوالے سے مختلف دعوے کیے گئے جن میں کہا گیا کہ کم سن بچی زینب کا قاتل ایک بڑے مافیا کا حصہ ہے، اس کے ساتھ ایک وفاقی وزیر اور ایک دوسرا شخص بھی شامل ہے، ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں جن میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔

ان دعووں کو بعض دیگر میڈیا سیکشنز نے بھی رپورٹ کیا اور پھر سوشل میڈیا پر اس پر بحث کا آغاز ہوا، ساتھ ہی ملزم عمران سے متعلق کچھ بینکوں کی تفصیلات پر مبنی دستاویزات بھی سوشل میڈیا پر چل نکلیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے معاملے کا نوٹس لیا وزیراعلیٰ پنجاب نے تحقیقات کے لیے معاملہ پہلے سے بنائی گئی جے آئی ٹی کے سپرد کیا اور تحریک انصاف کے چیئرمین نے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران مذکورہ دعوے کرنے والے نجی ٹی وی کے اینکر نے پیش ہو کر دستیات معلومات عدالت کے سامنے پیش کیں تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سچ سامنے آنے پر سب کی پریشانی دور ہو گی، چیزوں کی مرحلہ وار تصدیق کرائیں گے۔

سوشل میڈیا پر مچنے والی ہلچل پر جیو نیوز نے بینکوں سے رابطہ کیا تو بینک حکام نے تمام دعووں کو مسترد کر دیا، بینکوں کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کی کسی بھی بینک برانچ میں ملزم محمد عمران کا اکاؤنٹ موجود نہیں ہے۔

جیو نیوز کے تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا پر چلنے والی ملزم عمران کی بینکوں کی تفصیلات دراصل بینکوں کے نادرا کے ساتھ جڑے سسٹم کا لاگ ڈیٹا ہے۔

جب ملزم عمران پکڑا گیا اور اس کے شناختی کارڈ کا نمبرعام ہوا تو مختلف بینکوں میں اس شناختی کارڈ نمبر کو چیک کیا گیا کہ کہیں اس ملزم کا بینکوں کی کسی برانچ میں اکاؤنٹ تو نہیں۔

شناختی کارڈ نمبر چیک کرنے کے مختلف بینک برانچز کا ڈیٹا ایک جگہ اکٹھا کر کے سوشل میڈیا پر چلا دیا گیا جس میں کوئی حقیقت نہیں اور نا ہی ان میں کسی بینک کا اکاؤنٹ نمبر ہے۔

پولیس ماہرین کہتے ہیں کہ یہ کیسا بڑا مافیا ہے کہ جس نے ملزم عمران کو باآسانی پکڑے جانے دیا اور غائب بھی نہ کیا ایسا نہیں ہوتا۔

ملزم عمران کی گرفتاری

23 جنوری کو لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں تصدیق کی کہ قصور کی رہائشی زینب انصاری سے زیادتی اور قتل میں ملوث سیریل کلر محمد عمران کو ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے گرفتار کیا گیا ہے۔

شہباز شریف نے کہا تھا کہ زینب کے قتل کے بعد ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل کی دی گئی تھی جس نے 14 روز کی انتھک محنت کے بعد ملزم کو گرفتار کیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لیے 1150 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے گئے اور 1108 واں ڈی این اے ٹیسٹ محمد عمران کا تھا، ڈی این اے سے 100 فیصد تصدیق کے بعد اس کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی لیا گیا جس میں ملزم محمد عمران نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔

عدالتی کارروائی

ملزم عمران کو 24 جنوری کو لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے 7 سالہ زینب کے ساتھ زیادتی اور اسے قتل کرنے کا اعتراف کیا۔

اس کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم عمران کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ نے بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو ہدایات دی ہیں کہ وہ زینب قتل کیس کا فیصلہ پولیس کی جانب سے چالان جمع کرائے جانے کے بعد 7 دن کے اندر فیصلہ سنائے۔

مزید خبریں :