پاکستان
Time 25 جنوری ، 2018

سوشل میڈیا پر زیرِ گردش زینب کے قاتل کے بینک اکاؤنٹس کی فہرست غلط نکلی

بعض میڈیا سیکشنز کم سن بچی زینب کے قاتل کے 37 بینک اکاؤنٹس موجود ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس کا نوٹس لیا جبکہ شہباز شریف نے انکوائری کا حکم دے دیا،عمران خان بھی معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن بعض بینکوں کے حکام کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر آنے والا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر زینب کے قابل محمد عمران کے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے گردش کرنے والی فہرست درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ملزم عمران پکڑا گیا اور اس کاشناختی کارڈ نمبر بھی سامنےآیا تو مختلف بینکوں میں اس شناختی کارڈ نمبر کو چیک کیا گیا کہ کہیں اس ملزم کا بینک اکاؤنٹ تو نہیں۔

شناختی کارڈ کی مدد سے بینک اکاؤنٹ نمبر چیک کرنے کے لئے مختلف بینکوں کی جوفہرست تھی اس فہرست کو ایک جگہ اکٹھا کر کے سوشل میڈیا پر چلا دیا گیا جس میں کوئی حقیقت نہیں، نہ ہی اس فہرست میں کسی بینک کا اکاؤنٹ نمبر ہے۔

اسٹیٹ بینک اور نادرا کا مؤقف

اسٹیٹ بینک کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ملزم عمران کا پاکستان کے کسی بینک میں کوئی فعال اکاؤنٹ نہیں ہے جبکہ دوسری طرف ملزم عمران کا سامنے آنا والا شناختی کارڈنمبر بھی درست نہیں اور اس بات کی تصدیق نادرا نے بھی کردی ہے۔

علاوہ ازیں نہ ہی ملزم نے اپنا پاسپورٹ بنوایا ہے اور نہ ہی کبھی اس نےپاسپورٹ بنوانےکے لیے کوئی درخواست دی ہے۔

سپریم کورٹ میں سماعت

زینب سمیت قصور کی 8 بچیوں سے زیادتی کے ملزم عمران کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک فہرست سامنے آئی اور دعویٰ کیا گیا کہ ملزم عمران علی کا تعلق ایک بین الاقوامی گروہ سے ہے جوبچوں کی فحش فلمیں بناتا ہے جبکہ ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس بھی ہیں جن میں سے کچھ فارن کرنسی اکاؤنٹس ہیں۔

پھر یہ دعویٰ ایک ٹی وی شو تک جاپہنچا، اور اس پر باقاعدہ پروگرام کیا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا اورٹی وی اینکر کو طلب کیا۔

اینکر نے عدالت کو اس حوالے سے تفصیلات فراہم کیں اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ ملزم عمران کی جان کو خطرہ ہے، سماعت کے دوران ٹی وی اینکر نے عدالت کو بتایا کہ ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کا تعلق بھی ملزم کے ساتھ ہے جس پر عدالت نے اینکر سے تفصیلات طلب کیں اور اس اعلیٰ حکومتی شخصیت کا نام پوچھا۔

اینکر نے شخصیت کا نام عدالت کو لکھ کردیا جس کے بعد عدالت نے اس حوالے سے آئی جی پنجاب پولیس اور آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیا کہ وہ ملزم کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا کہ اگر ملزم کو کوئی جانی نقصان پہنچا، تو اس کی تمام تر ذمے داری ان دونوں افسران پر ہوگی۔

عدالت نے پنجاب حکومت کو بھی حکم دیا کہ وہ ملزم کے مبینہ فارن کرنسی اکاؤنٹس کے بارے میں بھی تحقیقات کرکےعدالت کو آگاہ کرے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے واضح کیا کہ سچ سامنے آنے پر سب کی پریشانی دور ہو گی، چیزوں کی مرحلہ وار تصدیق کرائیں گے اور اگر یہ الزامات درست نہیں ہوئے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا،اب اس کیس کی سماعت پیر کو ہوگی۔

بینک حکام کا مؤقف

سوشل میڈیا پر مچنے والی ہلچل پر جیو نیوز نے بینکوں سے رابطہ کیا تو بینک حکام نے تمام دعووں کو مسترد کر دیا، بینکوں کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کی کسی بھی بینک برانچ میں ملزم محمد عمران کا اکاؤنٹ موجود نہیں ہے۔

جیو نیوز کے تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا پر چلنے والی ملزم عمران کی بینکوں کی تفصیلات دراصل بینکوں کے نادرا کے ساتھ جڑے سسٹم کا لاگ ڈیٹا ہے۔

جب ملزم عمران پکڑا گیا اور اس کے شناختی کارڈ کا نمبرعام ہوا تو مختلف بینکوں میں اس شناختی کارڈ نمبر کو چیک کیا گیا کہ کہیں اس ملزم کا بینکوں کی کسی برانچ میں اکاؤنٹ تو نہیں۔

شناختی کارڈ نمبر چیک کرنے کے مختلف بینک برانچز کا ڈیٹا ایک جگہ اکٹھا کر کے سوشل میڈیا پر چلا دیا گیا جس میں کوئی حقیقت نہیں اور نا ہی ان میں کسی بینک کا اکاؤنٹ نمبر ہے۔

پولیس ماہرین کہتے ہیں کہ یہ کیسا بڑا مافیا ہے کہ جس نے ملزم عمران کو باآسانی پکڑے جانے دیا اور غائب بھی نہ کیا ایسا نہیں ہوتا۔

ملزم عمران کی گرفتاری

23 جنوری کو لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں تصدیق کی کہ قصور کی رہائشی زینب انصاری سے زیادتی اور قتل میں ملوث سیریل کلر محمد عمران کو ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے گرفتار کیا گیا ہے۔

شہباز شریف نے کہا تھا کہ زینب کے قتل کے بعد ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل کی دی گئی تھی جس نے 14 روز کی انتھک محنت کے بعد ملزم کو گرفتار کیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لیے 1150 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے گئے اور 1108 واں ڈی این اے ٹیسٹ محمد عمران کا تھا، ڈی این اے سے 100 فیصد تصدیق کے بعد اس کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی لیا گیا جس میں ملزم محمد عمران نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔

عدالتی کارروائی

ملزم عمران کو 24 جنوری کو لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے 7 سالہ زینب کے ساتھ زیادتی اور اسے قتل کرنے کا اعتراف کیا۔

اس کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم عمران کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ نے بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کو ہدایات دی ہیں کہ وہ زینب قتل کیس کا فیصلہ پولیس کی جانب سے چالان جمع کرائے جانے کے بعد 7 دن کے اندر فیصلہ سنائے۔

مزید خبریں :