پھر ایک نیا بت !

پنڈت جی کے نئے بت کا نام 'انصاف کا دیوتا' ہے—۔فائل فوٹو

یہ کہانی ہے ایک ایسے جزیرے کی جہاں ابھی تک علم اور جمہوریت کی روشنی نہیں پہنچی۔ وہاں کے لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں، کھیتوں میں ہل چلاتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے دیوتاؤں کی طرف رجوع کرتےہیں۔

اس جزیرے میں ایک مندر ہے، جس کا تمام تر انتظام ایک پنڈت جی نے سنبھال رکھا ہے۔ بہت عرصہ پہلے پنڈت جی نے وہاں ایک بت رکھا اور اسے 'مساوات کا دیوتا' کا نام دیا۔ لوگوں نے مساوات کے دیوتا کی پوجا شروع کر دی۔

 کچھ عرصے بعد پنڈت جی کو یہ خلش ستانے لگی کہ لوگ میرے تراشے ہوئے بت کو تو بہت اہمیت دے رہے ہیں لیکن اب مجھے کوئی اہمیت نہیں دے رہا۔ اپنی اہمیت منوانے کے لیے انہوں نے ایک ترکیب سوچی اور رات کی تاریکی میں جب تمام لوگ بے خبر سو رہے تھے تو پنڈت جی نے 'مساوات کے دیوتا' کے گلے میں پھندہ ڈالا اور اسے مندر سے باہر پھینک دیا۔

اگلی صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے اور مندر کی طرف آئے تو اپنے دیوتا کا یہ حال دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

پنڈت جی نے لوگوں کو سمجھایا کہ یہ دیوتا اب تمہارے مسائل حل نہیں کر رہا تھا، تم لوگ کچھ دن صبر کرو میں تمہارے لیے ایک نیا بت تراش رہا ہوں۔

کچھ دنوں کے بعد پنڈت جی نے ایک نیا بت تراش کر مندر میں رکھ دیا اور اس بت کا نام رکھا 'معیشت کا دیوتا'۔ ساتھ ہی انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ پرانا دیوتا تمہیں مساوات نہیں دے سکا تھا لیکن یہ دیوتا تمہارے معاشی مسائل حل کردےگا اور تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جائے گا اور تمہارا مستقبل روشن ہو جائے گا۔

رفتہ رفتہ لوگ پرانے دیوتا کو بھولنے لگے اور نئے دیوتا کے دیوانے ہوگئے۔

اس جزیرے کے حالات بالکل معمول کے مطابق چل رہے تھے کہ اچانک وہاں سے ایک اور خبر آگئی۔

اس مرتبہ پنڈت جی نے 'معیشت کے دیوتا' کا منہ کالا کرکے اسے مندر سے باہر پھینک دیا۔

جب لوگوں نے اپنے دیوتا کا یہ حال دیکھا تو احتجاج کرنا شروع ہوگئے اور کہا کہ ہم اس دیوتا سے خوش تھے لیکن آپ نے اس کا یہ حال کیوں کیا ہے؟

پنڈت جی نے جواب دیا کہ اب ہمیں 'معیشت کے دیوتا' کی ضرورت نہیں ہے۔ تم لوگ کچھ دن صبر کرلو اور فی الحال کوئی عارضی بت رکھ کر اس کی پوجا کرو، عنقریب تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ میں تم لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا بت تراش رہا ہوں، جو مکمل طور پر سونے کا بنا ہوا ہوگا۔ اس کے ناک، کان اور آنکھوں میں ہیرے جڑے ہوں گے۔ وہ اتنا بڑا اور شاندار ہوگا کہ دیکھنے والے اس کی تاب نہ لاسکیں گے۔ اس بت کا نام میں نے 'انصاف کا دیوتا' رکھا ہے۔

اس جزیرے کے لوگ اس بات پر پریشان ہیں کہ پنڈت جی بار بار ایک نیا بت بنا کر کیوں لے آتے ہیں اور پنڈت جی یوں پریشان ہیں کہ یہاں کے لوگ میرے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا تو کرتے ہیں لیکن مجھے اہمیت نہیں دیتے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پنڈت جی کب تک نئے بت تراشتے رہیں گے اور لوگ کب تک ان کے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے رہیں گے۔۔۔!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔