بلاگ
Time 30 اپریل ، 2018

کیا ثمینہ سندھو کی ہلاکت گولی لگنے سے ہوئی؟

ہر کہانی کے پس منظر میں اسلحے کا زور، طاقت کا خمار اور برتری کا زعم کام کر رہا ہے— فوٹو: سوشل میڈیا 

ثمینہ سندھو کا قتل ہمارے سماج کا آئینہ ہے، اس سماج کا آئینہ جہاں شیما کرمانی کی دھمال مزاحمت کی علامت کی بجائے فحاشی تصور کی جائے، اس سماج کا آئینہ جو ایک مقامی ڈانسر سنبل خان کو رقص کی محفل میں شرکت سے انکار کرنے پہ مار دیتا ہے، گلوکارہ بریختا کے والد رشتے سے انکار کرتے ہیں تو بریختا کو شریک حیات بنانے کا خواہشمند اس کی جان لے لیتا ہے۔

 اداکارہ قسمت بیگ کا قتل ہوتا ہے تو وزیر قانون پنجاب کہتے ہیں پروموٹر نے قتل کرایا ہوگا ویسے بھی ان کے قریبی تعلقات تھے۔

یہ اس سماج کا آئینہ ہے جو صدیوں سے موسیقی سننا چاہتا ہے مگر گلوکار سے نفرت کرتا ہے، رقص کا مداح ہے مگر رقاصہ سے گھن آتی ہے۔ اس سماج کا آئینہ جو فنکار کو انکار کا حق نہیں دیتا۔

انکار کا مطلب کسی فرد کے حق سے زیادہ انا کو ٹھیس پہنچانا سمجھا جاتا ہے اور پھر جس کے پاس طاقت ہو، اختیار ہو، اور برتری کا زعم ہو وہ قتل کا جواز رکھتا ہے۔ 

آپ جنسی بالادستی رکھتے ہوں اور پھر انکار سننا پڑ جائے، اس سے بڑھ کر بھی قتل کا کوئی جواز ہوسکتا ہے بھلا؟

شاہ رخ جتوئی سے طارق جتوئی تک کی کہانی ایک ہی ہے۔ ہر کہانی کے پس منظر میں اسلحے کا زور، طاقت کا خمار اور برتری کا زعم کام کر رہا ہے، دوہرا ظلم یہ کہ کہا جا رہا ہے بےچاری حاملہ پہ گولی چلا دی، دو قتل ہو گئے۔ 

سوال یہ ہے کہ اگر ثمینہ سندھو حاملہ نہ ہوتی تو کیا مؤقف ہوتا؟ کیا ہمیں تب بھی اتنی ہی تکلیف ہوتی؟ سندھ کی دھرتی پہ ہونے والے اس قتل پہ اسی دھرتی کے باسی ایک پڑھے لکھے نوجوان نے کہا ’تو اُسے کس نے کہا تھا کہ گانے گاتی پھرے‘۔ 

سفاکی، بےدردی اور نفرت کا اس سے مختصر پیرائے میں اظہار ممکن نہیں۔ اس تماشے میں اصل داد کے مستحق وہ لوگ ہیں جو ایک طرف تو دعوے کرتے ہیں کہ ان کے مذہب اور ان کی روایات میں عورت کا بہت احترام ہے، بےحد اونچا مقام ہے لیکن کن عورتوں کا؟ 

صرف ان کا جو ان کے بنائے کسی معیار کے مطابق زندگی گزارتی ہیں، ان کی پسند کا لباس زیب تن فرماتی ہیں اور ان کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق زندگی گزارتی ہیں، باقی جو بھی ذرا ہٹ کر چلے وہ کیا ہے، یہ بتانا کچھ مشکل نہیں۔

روایات ہوں یا اقدار ان کا سہارا لے کر کسی گلوکارہ یا اداکارہ کا قتل کوئی نئی بات نہیں اور جو حالات ہیں یہ بات کبھی پرانی ہو گی بھی نہیں، اگر ہم کسی دھن پہ جھوم سکتے ہیں، کوئی آواز سماعتوں میں رس گھول سکتی ہے تو ہمیں اس آواز کو آزادی کا حق بھی دینا ہوگا اور جینے کا بھی۔

 جو ناچنا چاہے اسے ناچنے سے روکنا اور جو رقص سے انکار کرے اسے رقص پہ مجبور کرنا ایک سی ذہنیت ہے۔ دونوں میں فرق کوئی نہیں ہے مگر ہمارے سماج میں یہ فرق بہت واضح ہے، یہ قاتل ایسے بہادر اور جری ہوتے ہیں کہ فرماتے ہیں وہ ایک اندھی گولی کا نشانہ بنی۔

ثمینہ سندھو ایک وڈیرے کے احساسِ برتری کا نشانہ بنی۔ ایک محفل میں شرکت کے کتنے پیسے ملتے ہوں گے؟ شوق پورا کرتی ہوگی یا گھر چلاتی ہو گی؟ جانے اسے موسیقی سے کتنا لگاؤ ہوگا اور زندگی جینے سے متعلق کیا خواہشات ہوں گی؟ لیکن محفل کے خمار میں مبتلا شخص کو اس سب سے کیا واسطہ؟ اس کے نزدیک تو محفل میں رنگ کی کچھ کمی تھی اور پھر وہی محفل لہو رنگ ہوئی تو جا کر یہ کمی پوری ہوئی۔

ہم قاتل کو سزا تو دینا چاہتے ہیں اور دینی بھی چاہیے، اِس سے اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنی سوچ کو بھی احساس کی عدالت میں پیش کرنا چاہیں گے؟ ہم اپنے تصورات کو بھی سزا دینا چاہیں گے؟ کیا ہمارا اجتماعی شعور فن اور فنکار کی پذیرائی کرنے کو تیار ہوگا؟

رامش فاطمہ ڈاکٹر ہیں اور @Ramish28 پر ٹوئیٹ کرتی ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔