07 جون ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی تو اس موقع پر صرف نواز شریف پیش ہوئے، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر مسلسل دوسری سماعت پر غیرحاضر رہے۔
سماعت شروع ہوئی تو نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن جانا ہے اس لیے 11 تا 15 جون تک حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔
درخواست گزاروں کی جانب سے درخواست کے ساتھ کلثوم نواز کی نئی میڈیکل رپورٹ بھی لگائی گئی۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے استثنیٰ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر 11 جون کو بحث کرلی جائے، کیس حتمی مراحل میں ہے اور ملزمان کی جانب سے درخواست آگئی ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کی استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت کل صبح تک کے لیے ملتوی کردی۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کے حتمی دلائل
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے آج مسلسل تیسرے روز حتمی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نواز شریف ہی لندن فلیٹس کے اصل مالک ہیں جب کہ آف شور کمپنی کے ذریعے اصل ملکیت چھپائی گئی۔
سردار مظفر عباسی نے کہا کہ قطری شہزادے کا بیان غیر متعلقہ ہے لیکن پھر بھی جےآئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی جس کے لیے 24 مئی 2017 کو اسے بیان ریکارڈ کرانے کے لئے بلایا۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ جے آئی ٹی کے نوٹس قطری شہزادے کو موصول ہوئے مگر وہ پیش نہ ہوئے جب کہ 11 جولائی 2017 کو قطری شہزادے کا دوسرا جواب آیا لیکن پھر اس نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے اجتناب کیا۔
سردار مظفر عباسی نے دلائل کے دوران کہا کہ 22 جون 2017 کو قطری شہزادے کو پھر بلایا گیا اور جے آئی ٹی نے کہا آپ نہیں آتے تو ہم دوحا کے پاکستانی سفارخانے میں آجاتے ہیں۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ قطری نے شرائط رکھیں کہ وہ نہ تو پاکستانی سفارت خانے میں آئیں گے اور نہ عدالت میں پیش ہوں گے جب کہ جرح میں کہا گیا کہ قطری شہزادے کو دھمکی لگائی گئی، یہ درست نہیں ہے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ 1993 سے 1996 تک حسین نواز طالبعلم تھے اور اس وقت ان کا کوئی ذرائع آمدن نہیں تھا جب کہ وہ ان فلیٹس کے قبضے کو تسلیم کرچکے ہیں جب کہ وہ فلیٹس کا اس وقت سے گراونڈ رینٹ، سروسز رینٹ ادا کرتے رہے ہیں۔
سردار مظفر عباسی نے کہا کہ اگر حسین نواز فلیٹس کے مالک نہیں تھے تو انہیں گراؤنڈ رینٹ ادا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق 2 رائے ہیں، نیب پراسیکیوٹر
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے جے آئی ٹی میں ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی پیش کی اور کہا کہ یہ اصل ہے جب کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق دو رائے ہیں۔
سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ایکسپرٹ اسٹیفن موورلے نے دستاویزات نہیں دیکھیں اور عمومی رائے دی جب کہ ایکسپرٹ گلڈ کوپر نے دستاویزات کے جائزے کے بعد رپورٹ تیار کی جو انتہائی اہم ہے۔
سردار مظفر عباسی نے کہا کہ اسٹیفن موورلے کی رپورٹ حسین نواز نے جمع کرائی جب کہ گلڈ کوپر کی ایکسپرٹ رپورٹ عمران خان نے فراہم کی۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے مزید کہا کہ سامبا بینک کا خط مریم نواز کو لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ہونے سے جوڑتا ہے جب کہ موزیک فونیسکا کے خطوط مریم نواز کے بینفشل آنر ہونے کے ناقابل تردید دستاویزی شواہد ہیں۔
حتمی دلائل کے دوران سردار مظفر عباسی نے کہا کہ موزیک فونسیکا نے 2012 کے خطوط میں مریم نواز کے بینفشل آنر ہونے کی تصدیق کی جس نے اس حوالے سے خطوط ایف آئی اے، بی وی آئی کو لکھے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ موزیک فونسیکاکے خطوط میں کسی ٹرسٹی کا ذکر ہی نہیں، ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق حسین کے انتقال پر مریم نواز کو ان کی جائیداد کی تقسیم کا اختیار ہوگا اور یہ متن ایک طرح سے وصیت نامے سے ملتا جلتا ہے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے مزید کہا کہ یہ سول نہیں کریمنل کیس ہے، مریم نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے اور وہ نواز نواز شریف کے زیر کفالت تھیں لیکن وہ بینیفشل مالک ہیں۔
کمرہ عدالت میں لیگی رہنما کے گفتگو کرنے پر عدالت نے جھاڑ پلادی
کمرہ عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے غیر رسمی گفتگو کے دوران صحافی نے سوال کیا کہ نیب نے ایل این جی انکوائری کا حکم دیا ہے جس کا نواز شریف نے کوئی جواب نہیں دیا اور وہ خاموش رہے۔
صحافی کے سوال پر پرویز رشید نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اختیارات کا غلط استعمال ہوا اور اب سی این جی کی لائنیں نہیں لگتیں، کام کرنا جرم بن گیا ہے۔
اس موقع پر دوران سماعت لیگی رہنماؤں نے نواز شریف سے گفتگو کی جس پر جج احتساب عدالت محمد بشیر نے کمرہ عدالت میں گفتگو کرنے والوں کو چھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ جسے گفتگو کرنی ہے وہ برآمدے میں جا کر کرے۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق ہے جب کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔
جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر بھی نامزد ہیں۔