کراچی میں کھربوں روپے خرچ کرکے بھی کچھ نہ بدلا، تیسری نسل بھی پانی کیلئے سرگرداں

کراچی کے بیشتر علاقوں میں آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے اور کئی علاقوں کی مساجد کے وضو خانے بھی پانی سے مرحوم ہیں. فوٹو: فائل

کراچی میں 40 سال گزرنے کے باوجود پانی کے فراہمی کے حوالے سے کچھ نہیں بدلا بلکہ 4 دہائیوں کے دوران پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود شہری ابتر حالات کا شکار ہیں۔

سال 1978 میں پانی کی شدید محرومی کا شکار مخصوص متوسط علاقوں کے مکینوں کی تیسری نسل بھی پانی کی حصول کیلئے جدوجہد کرتی اور پریشان نظر آ رہی ہے۔

جون 1978 کے اخبارات پر ایک نظر ڈالیں تو وہ کراچی میں پانی کے فقدان یا عدم دستیابی کے حوالے سے ہوبہو جون 2018 کے اخبارات کی تصویر نظر آتے ہیں اور یہ اخبارات اگر کتابت کی بجائے کمپیوٹر کمپوزنگ سے تیار شدہ ہوں تو آج ہی کے روزنامے معلوم ہوتے ہیں۔

5 جون 1978 کو پاکستان قومی اتحاد کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور احمد کی جانب سے "کراچی کو پانی کے قحط سے بچایا جائے" کی سرخی کے ساتھ ایک بیان اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوا تھا۔

پروفیسر غفور احمد اگر زندہ ہوتے تو ان کا یہ بیان آج بھی تازہ ترین لگتا جس میں انہوں نے اس وقت کے سندھ کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل اقبال کو بھیجے گئے ٹیلیگرام کا حوالہ دیا تھا۔

ٹیلی گرام میں پروفیسر غفور احمد کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ اس روز فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد اور شمالی ناظم آباد کے علاقوں میں پانی کا ایک قطرہ سپلائی نہیں کیا گیا۔

ٹیلیگرام میں اس مسئلہ کی بڑی وجہ آب رسانی کے انتظام میں بدنظمی اور متعلقہ محکمہ کے افراد کی نااہلی، بدعنوانی، لاپرواہی اور بے حسی قرار دی گئی۔

پروفیسر غفور احمد نے اس وقت اس سنگین مسئلے کو افسر شاہی کا دیدہ دانستہ پیدا کردہ مسئلہ قرار دیا تھا۔

چار دہائیوں بعد کراچی میں اگر آج کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ان علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی کی کا مسئلہ آج بھی 40 سال قبل جیسا ہے بلکہ شہر کے دیگر اہم علاقے بھی دستیابی آب کے اہم مسئلے کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں۔

آج اس مسئلے پر پروفیسر غفور احمد مرحوم کی جماعت اسلامی ہی نہیں بلکہ 1978 کے بعد وجود میں آکر تین دہائی تک شہر پر قابض رہ کر انتشار کا شکار ہونے والی ایم کیو ایم، اس کے بطن سے پیدا ہونے والی پاک سر زمین پارٹی سمیت اور پیپلزپارٹی کے علاوہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں پانی کی عدم فراہمی کو بڑے مسئلے پر آواز اٹھا رہی ہیں۔

جون 1978 میں کراچی کو 23 کروڑ گیلن یومیہ پانی کی ضرورت تھی تاہم اُس وقت 16 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جا رہا تھا۔

نیوکراچی، فیڈرل بی ایریا، اورنگی ٹاون، قصبہ کالونی، ناظم آباد، عزیز آباد، لیاقت آباد، اعظم بستی، اختر کالونی، قیوم آباد، محمود آباد، لانڈھی کالونی، منظور کالونی، شیریں جناح کالونی، کورنگی کالونی، ملیر کالونی، ڈرگ کالونی اور بلال کالونی وغیرہ کے علاقوں میں اُن دنوں پانی کا شدید بحران تھا۔

چالیس سال گزر گئے مذکورہ بالا علاقوں میں پانی کی فراہمی آج بھی مسئلہ ہے۔

1978 میں کراچی کے سرکاری اداروں اور شہر کے بیشتر اسپتالوں میں پانی کے بحران پر قابو پانے کیلئے کنویں کھودے جارہے تھے۔ آج شہر میں جگہ جگہ اسی کا جدید نظام یعنی بورنگ کر کے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

1978 شہر کے بیشتر علاقوں میں لائنوں کے ذریعے گھروں تک پانی کی فراہمی کا نظام نہیں تھا بلکہ ان علاقوں میں پبلک نلوں کے ذریعے شہریوں کو پانی دیا جاتا تھا جہاں 24 گھنٹے پانی کے برتنوں کی قطاریں دیکھنے کو ملتی تھیں، آج شہر کے تمام علاقوں میں فراہمی آب کا نظام تو ہے مگر ان لائنوں میں پانی نہیں۔

40 سال قبل ہر گھر میں تلاش روز گار کے علاوہ اہم اور بڑا مسئلہ پانی تھا، علاقوں میں آئے روز پانی کے حصول کیلئے جھگڑے ہوتے تھے اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی تھی۔

غور کریں تو آج بھی کسی بھی عہدے کا سرکاری ملازم یا کسی بھی درجے کا کوئی شہری پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے، نواحی بستیوں میں پانی کی عدم فراہمی کے حوالے سے مساجد سے اعلانات کئے جاتے تھے کہ مسجد میں پانی نہیں ہے نمازی وضو گھر سے کرکے آئیں۔

40 سال کے دوران دنیا بدل گئی، لوگ پتھر کے دور سے نکل کر کمپیوٹرائزڈ دور میں جی رہے ہیں مگر کراچی میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے کچھ نہیں بدلا۔

کراچی کے بیشتر علاقوں میں آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے اور کئی علاقوں کی مساجد کے وضو خانے بھی پانی سے مرحوم ہیں۔

سال 1978 میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا وجود عمل میں نہیں آیا تھا، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بلدیہ کراچی الگ الگ باڈیز تھیں۔ اُس وقت پانی کی فراہمی کے ڈی اے کے ذمے تھی۔ ان دنوں بھی کے ایم سی اور کے ڈی اے پانی کی فراہمی کے مسئلہ پر ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگے رہتے تھے۔

اکیس مئی 1978 ڈائریکٹر جنرل سید محب اللّہ شاہ نے پانی کے بحران پر عوامی ردعمل کے سلسلے میں اداروں پر الزام تراشی کی۔

ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے پانی کی عدم فراہمی کا جواز بلدیہ کراچی کی جانب سے واجبات کی عدم ادائیگی کو بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلدیہ کراچی میں پانی کی مد میں کے ڈی اے کو 16 کروڑ روپے ادا کرنے ہیں، اگر 16 کروڑ روپے کے ڈی اے کو مل جائیں تو پمپنگ اسٹیشنز، فلٹر پلانٹس اور مشینوں کی مرمت کرا کر سپلائی کو ٹھیک کیا جاسکتا تھا۔

غور کریں تو آج بھی شہر میں مسائل ان دو اداروں کی چپکلش کی وجہ سے ہیں۔

جون 1978 میں کراچی کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے عظیم منصوبہ آب رسانی کے تیسرے مرحلے کے شروع ہونے کا جھانسہ دیا جارہا تھا اور آج غور کریں تو کراچی کے شہریوں کو کے فور جیسے نئے منصوبے کا رولی پاپ دکھایا جارہا ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ وہ پانی بھی کراچی کی ان آبادیوں تک نہیں پہنچ سکے گا۔

1978 میں بھی کراچی شہر کی آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ کو پانی کی قلت کا جواز بنایا جارہا تھا۔ واٹربورڈ حکام سے آج بات کریں تو وہ بھی یہی مسئلہ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

جون 1978 میں کراچی کے 37 مقامات پر پانی کی سپلائی کی لائنوں میں لیکج یا رساو کو جواز بنایا جاتا تھا اگر آج ادارے سے بات کریں تو پانی کی کمی کے مسئلہ پر لائنوں کے رساؤ کو بڑی وجہ کہا جاتا ہے۔

سال 1978 میں پانی سپلائی اور ترسیل پر تعینات سرکاری افسران کی رشوت اور اقربہ پروری اہم مسئلہ قرار دی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ وہ مالی فوائد حاصل کرنے کیلئے من پسند افراد اور اداروں کو پانی دیتے تھے۔

آج اگر جائزہ لیں تو ایسے افسران کروڑوں اور ارب پتی بن چکے ہیں، کئی سیاسی لیڈرز کراچی کے پانی کی کرپشن سے کروڑ پتی بن کر ملک سے باہر منتقل ہوکر عیاشی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

چالیس سال قبل سرکاری افسران کی جانب سے رشوت کے عوض رہائشی آبادیوں کا پانی صنعتی علاقوں کو فراہم کرنے کے الزامات تھے، آج اگر جائزہ لیں تو فراہمی آب کے شعبہ کے افسران نے اسے کاروبار بنا رکھا ہے۔

بیشتر علاقوں میں بااثر شہریوں پر الیکٹرک موٹرز لگا کر لائنوں سے اضافی پانی کھینچنے کا الزام تھا، آج کے بااثر شہریوں نے سپلائی کی مرکزی لائنوں سے نجی کنکشن لے رکھے ہیں۔

8 جون 1978 کو کراچی کی نو تشکیل شدہ ڈویژنل سیٹزن کمیٹی نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس میں پانی کی قیمتوں اور فراہمی میں گڑبڑ کے معاملات کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

کمیٹی نے نارتھ کراچی، ناظم آباد، اورنگی ٹاون، بلدیہ ٹاؤن ملیر، سعودآباد، لانڈھی اور دیگر علاقوں میں پانی کے فقدان کا رونا رویا گیا۔

21 جون 1978 کو پانی کی عدم دستیابی کی بنا پر ایک کراچی کی تاریخ کا افسوسناک واقعہ سامنے آیا جب ایک میت کو غسل دینے کیلئے پانی دستیاب نہیں ہو سکا تھا اور اسے تیمم کر کے دفنایا گیا۔

یہ واقعہ آل اورنگی سدھار کمیٹی کے نائب صدر امام دین اور جنرل سیکرٹری حسیب خان نے "جنگ" کراچی کے دفتر پہنچ کر رپورٹ کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اورنگی ٹاؤن سیکٹر 10 میں 50 سالہ سبزی فروش رکن الدین کا انتقال ہوا جس کی میت کو غسل دینے کیلئے بھی پانی دستیاب نہ تھا اور میت کو تیمم کرنے کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔

خدانخواستہ کراچی میں پانی سے متعلق اداروں اور سیاسی جماعتوں کی چپکلش جاری رہی تو صورتحال اس سے بھی گھمبیر ہوسکتی ہے۔

مزید خبریں :