پاکستان
Time 11 جولائی ، 2018

منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور سے منی ٹریل مانگی جائے گی

ابھی صرف ایک بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات پر مقدمہ درج ہوا ہے، باقی کی تفصیلات آنا شروع ہو گئی ہیں اور قانونی کارروائی کے بعد مزید 28 مقدمات درج ہوں گے— فوٹو: فائل

اسٹیٹ بینک کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس کی اطلاع وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو پہلی مرتبہ 2015 میں دی گئی اور چار بینک اکاؤنٹس کی ایس ٹی آرز یعنی مشکوک ترسیلات کی اطلاع دی گئی۔

مارچ 2015 میں ڈائریکٹر ایف آئی اے کے حکم پر انکوائری بھی ہوئی اورانکوائری میں مقدمے درج کرنے کی سفارش بھی کی گئی لیکن شدید اور بھاری سیاسی دباؤ کے باعث نہ مقدمہ کیا گیا نہ ہی انکوائری کو آگے بڑھایا گیا۔

دسمبر2017 میں پچھلے چار اکاؤنٹس سمیت 29 اکاؤنٹس کا بتایا گیا جس پر انکوائری دوبارہ شروع ہوئی، یہ 29 اکاؤنٹس تین بینکوں میں ہیں۔

دوبارہ شروع ہونے والی تحقیقات کے دوران بھی ایف آئی اے سے مکمل تعاون نہیں کیا گیا، ایک بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات پر مقدمہ درج ہوا، باقی کی تفصیلات آنا شروع ہو گئی ہیں اور قانونی کارروائی کے بعد مزید 28مقدمات درج ہوں گے۔

ایف آئی اے حکام نے جیونیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائرکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی، مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

پچھلی انکوائری کی رپورٹ بھی شامل کی گئی، تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈال دیا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق منی لانڈرنگ کی اصل رقم 72 ارب روپے ہے تاہم اب تک دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، 29 بینک اکاؤنٹس میں سے سمٹ بینک کے16، سندھ بینک کے8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

بینک انتظامیہ کو کئی بار نوٹسز کے باوجود ان کی جانب سےاب تک تمام ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے تھے۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق سابق صدر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کو نوٹس پر ان کے وکلا نے جواب جمع کرواکر مہلت مانگی ہے۔

ان کے وکلا نے انتخابی مہم کے باعث 25 سے 30 جولائی تک کی مہلت مانگی تھی تاہم دونوں کو 23 جولائی تک کی مہلت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے بعد قانونی کارروائی ہوگی۔

حکام کے مطابق دونوں سے پیسوں کی منی ٹریل اور انکم ٹیکس ریٹرنز پوچھے جائیں گے، یہ بھی پوچھا جائے گا کہ جو رقم آئی وہ کہاں خرچ ہوئی۔

حکام کے مطابق آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کے سی ایف او کو بھی نوٹس دیا گیا تھا، نوٹس کے باوجود جب سی ایف او پیش نہ ہوئے تو پھر آصف زردارری اور فریال تالپور کو نوٹس جاری کیے گئے۔

حکام مزید بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد تینوں نجی بینکس نے ایف آئی اے کو تفصیلات فراہم کرنا شروع کردیں او جیسے ہی تفصیلات مکمل ہوں گی توقانونی کارروائی کے بعد28 مقدمات درج ہوں گے۔

مزید خبریں :