16 اگست ، 2018
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی کی درخواست پر سماعت کے لیے تشکیل دیا گیا اسلام آباد ہائیکورٹ کا بینچ پھر ٹوٹ گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت پر تشکیل دیئے گئے 2 رکنی ڈویژنل بینچ کے سربراہ جسٹس شوکت عزیر صدیقی تھے جب کہ بینچ کے دوسرے رکن جسٹس اطہر من اللہ تھے۔
عدالتی بینچ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی نااہلی کے لیے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) افتخارمحمد چوہدری کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالوہاب بلوچ کی درخواست پر سماعت کرنا تھی۔
اس کے علاوہ دو رکنی بینچ نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کی متفرق درخواست بھی سننا تھی جو شہدا فاؤنڈیشن کے حافظ احتشام نے دائر کی تھی۔
جسٹس اطہر کی معذرت
جمعرات کے روز جب عدالت میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاکہ وہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ رہے ہیں اور ان کا ایک تعلق رہا ہے لہٰذا وہ کیس نہیں سن سکتے۔
جسٹس اطہر من اللہ کی معذرت کے بعد بینچ تیسری مرتبہ ٹوٹ گیا اور نیا بینچ بنانے کے لیے معاملہ پھر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوادیا گیا ہے۔
گزشتہ روز تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس دو رکنی بینچ پر اعتراض دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جسٹس شوکت عزیزصدیقی کے تحریک انصاف کے بارے میں تاثرات ٹھیک نہیں جب کہ جسٹس اطہر من اللہ کا تعلق سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے رہا ہے۔
درخواستوں میں مؤقف
عمران خان کے خلاف جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیاگیا تھا کہ عمران خان نے ٹیریان سے متعلق جھوٹ بولا اور کاغذات نامزدگی میں اسے بیٹی ظاہر نہیں کیا، وہ صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا انہیں آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
اس کے علاوہ شہدا فاؤنڈیشن کے حافظ احتشام کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ عمران خان آرٹیکل 62 کے تحت رکن قومی اسمبلی بننے کے اہل نہیں ہیں جب کہ ریحام خان نے اپنی کتاب میں عمران خان پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں، ایسے شخص کا وزیراعظم بننا ملکی سالمیت اور وقار کیخلاف ہے۔
جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکریٹری عبدالوہاب بلوچ کی درخواست پر سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی تھی اور عمران خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم اگست کو جواب طلب کیا تھا لیکن یہ بینچ بعد میں تبدیل کردیا گیا تھا اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جگہ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کو بینچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔
2 اگست کو جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کرنی تھی لیکن بینچ نے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیا تھا۔
حافظ احتشام کی درخواست پر 6 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی تھی اور کیس پر سماعت سے معذرت کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوادیا تھا۔