ایف آئی اے کی جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی بنانے کی سفارش


اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی جس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق صدر آصف علی زرداری کے وکیل اعتزاز احسن نے التوا کی درخواست دائر کی جسے چیف جسٹس نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ آج کافی وکلا موجود ہیں اس لیے کیس ملتوی نہیں کرسکتے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آج جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے کیس مقرر ہے، آصف زرداری اور فریال تالپور حفاظتی ضمانت پر ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کس عدالت نے دونوں کو حفاظتی ضمانت دی۔

دوران سماعت وکیل اومنی گروپ نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے متعلق تحریری جواب تیار کیا تھا، پی آئی اے کی پرواز سے اسلام آباد آیا لیکن سامان لاہور پہنچا دیا گیا۔

سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حسین لوائی کی کیا صورتحال ہے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ایف آئی اے کی حراست میں ہیں اور انہیں جوڈیشنل ریمانڈ پر رکھا گیا ہے۔

عدالت نے عبدالغنی مجید کو اسپتال منتقل کرنے کی استدعا مسترد کردی اور علاج کے لیے باقاعدہ درخواست کی ہدایت کی جب کہ عدالت کی کیس کی مزید سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات

سپریم کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوران تحقیقات اومنی گروپ کی دبئی میں کام کراؤن ٹریڈنگ کمپنی کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے کہ جب کہ بدین میں کھوسکی شوگر مل سے بھی اہم دستاویزات حاصل کی گئیں اور کئی اہم ریکارڈ چھاپے سے پہلے ہی جلا دیا گیا تھا۔

ایف آئی اے رپورٹ میں چھاپے سے قبل ریکارڈ جلائے جانے کا انکشاف

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کام کراؤن کمپنی کے 2 فارن اکاؤنٹس کا علم عبدالغنی مجید کے دفتر سے ہوا، دبئی کے فارن اکاونٹس سے برطانیہ میں جائیداد خریدنے کے لیے رقم منتقل کی گئی تاہم یو اے ای حکومت سے کام کراؤن کمپنی کے بزنس کے بارے میں تفصیلات درکار ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کھوسکی شوگر مل میں جلائے گئے ریکارڈ کے نمونے حاصل کرلیے گئے ہیں جب کہ وہاں سے 27 ہارڈ ڈسک بھی قبضے میں لی گئیں جنہیں فارنزک تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

انور مجید اور عارف خان کے اثاثے منجمد کرنے کی کارروائی شروع کردی، ایف آئی اے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور عارف خان کے اثاثے منجمد کرنے کے لیے کارروائی شروع کردی ہے اور اومنی گروپ کے ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات پر ایف بی آر کے جواب کا انتظار ہے۔

رپورٹ کے مطابق دوران تفتیش عبدالغنی مجید نے صرف محمدعمیر کو پہچانا کہ وہ اومنی گروپ کا ملازم ہے تاہم انہوں نے دیگر اکاؤنٹ ہولڈرز کو پہچاننے سے انکار کیا جب کہ عبدالغنی مجید نے یونس قدوائی کے ساتھ بزنس تعلق ہونے کا بھی اعتراف کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عبدالغنی مجید نے یونس قدوائی کے ساتھ بزنس تعلق ہونےکا اعتراف کیا، یونس قدوائی ربیکن بلڈرز اور ڈویلپرز کا ڈائریکٹر ہے، عبدالغنی مجید کے مالک ایچ ایچ ایکسچینج کمپنی حاجی ہارون سے روابط تھے اور عبدالغنی مجید نے ایچ ایچ کمپنی سے تعلق کا اعتراف کیا ہے، ایچ ایچ کمپنی نے80 سے 100 ملین روپے کے غیرقانونی طریقے سے امریکی ڈالر خریدے۔

دوران تفتیش اومنی گروپ کی 2 مزید کمپنیاں سامنے آئیں: رپورٹ

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہےکہ دوران تفتیش اومنی گروپ کی 2 مزید کمپنیاں سامنے آئی ہیں، دونوں کمپنیوں کے نام عمیر ایسو سی ایٹس اور پلاٹینم ایل پی جی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نورین سلطان، کرن امان اور اقبال نوری نے تفتیش جوائن کی ہے، نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ راشدی، محمد اشرف، قاسم علی اور شہزاد جتوئی ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں جب کہ بصیر عبداللہ لوطا، اسلم مسعود، عارف خان، عدنان جاوید، عمیر، اقبال آرائیں، اعظم وزیرخان، زین ملک، نمرمجید اور مصطفیٰ زوالقرنین مجید بھی مفرور ہیں۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر

ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔

مزید خبریں :