31 اگست ، 2018
اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے 27 نشاندہیاں کیں اور 15 ماہ کی مہلت دی ہے۔
سینیٹ کا اجلاس قائم مقام چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے ایف اے ٹی ایف کے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم پاکستان کادورہ کرکے خاموشی سے چلی گئی تو ٹیم نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کیا عندیہ دیا ہے؟
اس کے جواب میں وزیر خزانہ اسد عمر نے کہاکہ ایف اے ٹی ایف ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور پاکستان ماضی میں بھی 2 بار ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم نے اگست میں پاکستان کا دورہ کیا جو کہ گرے لسٹ کے حوالے سے نہیں تھا بلکہ ایف اے ٹی ایف کے وفد کا دورہ معمول کی کارکردگی جانچنے کے لیے تھا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف وفد کا دورہ ہر 5 سال بعد ہوتا ہے اور پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے معاملے کا ہر3 ماہ بعد جائزہ لیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف نے 27 نشاندہیاں کی ہیں جن میں کرنسی اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی اور کالعدم تنظمیوں کی مالی معاونت شامل ہیں، ایف اے ٹی ایف نے جو نشاندہیاں کی ہیں وہ پاکستان کے اپنے مفاد میں ہیں، ایف اے ٹی ایف کی نشاندہی چیلنج نہیں بلکہ موقع کے طور پر دیکھتا ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم ستمبر 2019 تک ایف اے ٹی ایف کی چیزیں پوری نہیں کرلیتے۔
اسد عمر نے بتایا کہ وزیر خزانہ کی سربراہی میں نیشنل ایکشن کمیٹی قائم کی گئی ہے جب کہ ایف اے ٹی ایف نشاندہیوں کو زیر غور لانے کے لیے نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 8 ستمبر کو ہوگا، اے ایف ٹی ایف کی جائزہ کمیٹی کا اجلاس 11 اور 12 ستمبر کو جکارتہ میں ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ ایف اے ٹی ایف نے ہمیں ستمبر 2019 تک کی ڈیڈلائن دی ہے، جب پاکستان کوگرے لسٹ میں شامل کیا گیا تب دوست ممالک نے بھی کمیشن سپورٹ نہیں کیا تھا۔
اسد عمر کے بیان پر ڈپٹی چیئرمین کا کہنا تھاکہ یعنی آپ پر امید ہیں ستمبر 2019 تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل جائیں گے۔ قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے اجلاس پیر تین بجے تک ملتوی کردیا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے جس میں امریکا، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خیلج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔
تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔
عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 2012 سے 2015 تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔