29 نومبر ، 2018
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کل بھی حتمی دلائل دیں گے۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں، نواز شریف آج عدالت کے روبرو پیش نہ ہوئے جن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی گئی۔
نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے حتمی دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ العزیزیہ ریفنرس کا آغاز پاناما پیپرز سے ہوا جسے سپریم کورٹ نے سنا اور جے آئی ٹی بنائی، یہ وائٹ کالر کرائم ہے، اس کیس کو اسپیشل لاء کے تحت دیکھا جائے گا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف سپریم کورٹ، جے آئی ٹی اور نیب میں ان اثاثوں کا حساب نہ دے سکے اور یہ اثاثے پہلی دفعہ سپریم کورٹ کے سامنے تسلیم کیے گئے، ملزمان کو تمام مواقع دیے گئے لیکن وہ وضاحت نہ دے سکے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں دی گئی منی ٹریل جعلی ثابت ہوئی، اثاثے تسلیم شدہ ہیں ،بے نامی دار ان اثاثوں کو چھپاتے ہیں، نواز شریف عوامی عہدیدار رہے، ان کے بچوں کے پاس اربوں روپے کے اثاثے ہیں، سوال یہ ہے کہ اثاثے کیسے بن گئے۔
نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے بیان دیتے ہوئے کہا شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ اثاثوں سے نوازشریف کا تعلق ہے، العزیزیہ اسٹیل ملزکے اثاثوں کی مالیت 2001 میں 6 ملین ڈالرز تھی جب کہ ہل میٹل کی مالیت 6-2005 میں 5 ملین پاؤنڈ تھی، نوازشریف کو کل منافع ایک ارب روپے سے زائد کا ہوا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا ہل میٹل کا 97 فیصد منافع پاکستان بھجوایا گیا، جب مل کم منافع کما رہی تھی تو بھی زیادہ پیسے بھجوائے جارہے تھے۔
جس پر فاضل جج نے استفسار کیا 'نیب نے ان رقوم کو منجمد کیا، یا کچھ بھی نہیں کیا، کیا یہ رقوم اب بھی بینک میں موجود ہیں؟۔
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا ' رقوم کو منجمد نہیں کیا گیا اور اب تو اکاؤنٹس میں بہت کم رقم پڑی ہے'۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا ریاست ماں کی طرح ہے، اپنے شہریوں سے اثاثوں سے متعلق پوچھ سکتی ہے، یہ پوری قوم کا سوال تھا، ایسے سوال خلفائے راشدین کے دور سے ہوئے جس پر جج ارشد ملک نے ریمارکس دیے یہاں پر بھی جواب ہی دیا گیا ہے کہ ہماری طرف سے جواب ہے، جس پر عدالت میں قہقہے لگائے گئے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں مزے کی بات یہ ہے کہ ملزمان کے سپریم کورٹ، جے آئی ٹی اور ٹرائل کورٹ میں جوابات مختلف ہیں، ہر دفعہ تفتیش کو نیا رخ دینے کی کوشش کی گئی۔
بعد ازاں احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی اور نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
العزیزیہ ریفرنس کی تفصیلات
نیب پراسیکیوٹر نے العزیزیہ ریفرنس کی تفصیلات بتاتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا، اس کیس کی تفتیش 2 اگست 2017 سے شروع ہوئی، 3 ملزم نامزد ہیں، تفتیشی افسر محبوب عالم تھے، یہ ریفرنس 15 ستمبر 2017 کو دائر ہوا اور ملزمان پر فرد جرم 19 اکتوبر 2017 کو عائد کی گئی۔
نیب پراسیکیوٹر کے مطابق اس ریفرنس میں ضمنی ریفرنس 14 فروری 2018 کو دائر ہوا، مجموعی طور پر 26 گواہان کو شامل کیا گیا اور 22 کا بیان ریکارڈ ہوا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا 'گواہ جہانگیر احمد نے تینوں ملزمان کا 1996 سے 2016 کا ٹیکس ریکارڈ پیش کیا، گواہ طیب معظم نے نواز شریف کے پانچ اکاؤنٹس کا ریکارڈ پیش کیا، یہ اکاؤنٹس پاکستانی روپے اور غیر ملکی کرنسی کے تھے اور ان اکاؤنٹس سے پتہ چلتا ہے کہ کتنی رقم آئی اور گئی'۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یاسر شبیر نے نوازشریف اور مریم نوازشریف کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پیش کیں، سدرہ منصور نے مہران رمضان ٹیکسٹائل کا ریکارڈ پیش کیا، گواہ عمر دراز دو مرتبہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے جب کہ گواہ آفاق احمد نے قطری شہزادے کا پہلا خط جے آئی ٹی کو پہنچایا۔
نیب پراسیکیوٹر کے مطابق گواہ علی رضا نے محمد انیس کے اکاؤنٹ کا ریکارڈ پیش کیا، محمد انیس کو ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے رقوم منتقل ہوئیں، عرفان محمود ملک نے حنیف خان کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پیش کیں، حنیف خان رمضان شوگر ملز کے مینجر تھے۔
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اظہر اکرام نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے اکاؤنٹنٹ انجم اقبال احمد کے اکاؤنٹ کا ریکارڈ پیش کیا، سنیل اعجاز نے شریف ٹرسٹ کے ملازم عبدالرزاق کے اکاؤنٹ کا ریکارڈ پیش کیا، گواہ شاہد محمود نے نوازشریف کے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کا ٹرانسکرپٹ اور ڈی وی ڈی پیش کی، نورین شہزادی نے نواز شریف اور حسین نواز کے اکاؤنٹ اوپننگ فارم پیش کیے، نورین شہزادی نے حسین نواز کے اکاؤنٹ میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے آنے والی رقوم کا ریکارڈ پیش کیا۔