پاکستان
Time 04 دسمبر ، 2018

فلیگ شپ ریفرنس: نوازشریف بیان قلمبند کرانے کیلئے کل طلب

عدالت نے آج نوازشریف کی حاضری سے استثنا کی درخواست منظور کرلی: فائل فوٹو

اسلام آباد: احتساب عدالت کے جج نے نوازشریف کی آج حاضری سے استثنا کی درخواست پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور انہیں فلیگ شپ ریفرنس میں بیان قلمبند کرانے کے لیے کل طلب کرلیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی جس میں نیب پراسیکیوٹر واثق ملک گزشتہ روز اپنے دلائل مکمل کرچکے اور آج سے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔

وکیل صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب کا کیس ہے کہ نواز شریف نے بے نامی کے طور پر جائیدادیں بنائیں تاہم بے نامی ٹرانزیکشن سے متعلق استغاثہ کوئی ثبوت نہیں لاسکا۔

خواجہ حارث نے کہا بیٹے نے ہل میٹل کی رقوم نواز شریف کو بھیجیں، صرف اس رقم سے بے نامی کے تمام اجزاء پورے نہیں ہوتے، العزیزیہ سےکوئی رقوم نوازشریف کو نہیں بھیجی گئیں اور ان کا پہلے دن سے ایک ہی موقف رہا ہے۔

وکیل صفائی نے کہا ہل میٹل کی رقوم سے متعلق جے آئی ٹی نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، نوازشریف کو بے نامی مالک کہہ دیا گیا لیکن کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

یہ استغاثہ کو ثابت کرنا تھا کہ نواز شریف نے کیسے العزیزیہ کے قیام میں معاونت کی، خواجہ حارث

خواجہ حارث نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کے قیام کے وقت نواز شریف کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا اور جو جائیداد ان کی ہے ہی نہیں وہ اس کی وضاحت کیوں دیتے جب کہ استغاثہ فرد جرم میں لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کرسکا۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا جرم میں معاونت یا مشورے میں ایک ہی کیس میں سزا ہوئی، وہ بھٹو کی سزائے موت تھی، یہ استغاثہ کو ثابت کرنا تھا کہ نواز شریف نے کیسے العزیزیہ کے قیام میں معاونت کی۔

وکیل صفائی نے کہا مریم نواز کو بھیجی گئی رقوم کا ذکر کیا گیا، وہ ریفرنس میں ملزمہ نامزد نہیں۔

دلائل کے دوران خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ گلف اسٹیل ملز کا معاہدہ جعلی نکلا، نواز شریف نے کبھی بھی گلف اسٹیل ملز کی فروخت پر انحصار نہیں کیا اور ان کے پاس تو گلف اسٹیل کی کوئی براہ راست معلومات ہی نہیں تھیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے خود لکھا گلف اسٹیل سے متعلق نواز شریف نے سنی سنائی باتیں کہیں، قطری خطوط کے بارے میں کہا گیا ان کی کوئی حقیقت نہیں، نواز شریف نے خود تو کبھی قطری خطوط پر انحصار نہیں کیا۔

قطری خطوط صرف حسین نواز کی جانب سے ہی تھے، وکیل صفائی

فاضل جج نے استفسار کیا آپ کا نکتہ یہ ہے کہ قطری خطوط صرف حسین نواز کا موقف تھے، نواز شریف نے تو 342کے بیان میں بھی ان پر انحصار نہیں کیا۔

خواجہ حارث نے جواب دیا 'جی قطری خطوط صرف حسین نواز کی جانب سے ہی تھے، شواہد کے مطابق العزیزیہ کے 3 شیئر ہولڈرز میں عباس شریف، رابعہ شریف اور حسین نواز تھے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا سوال یہ ہے کہ قانون کے مطابق بے نامی کی تعریف کیا ہے؟ قانون کی تعریف کے مطابق بے نامی کسی اور کی جائیداد اپنے پاس رکھنے والا ہوتا ہے، اس تعریف کے مطابق جائیداد کی ملکیت کسی اور کے پاس ثابت ہونا ضروری ہے۔

خواجہ حارث نے کہا جائیداد کی ملکیت کا تعلق ملزم سے ثابت ہونا ضروری ہے اور ملزم کو صرف اس جائیداد سے کوئی فائدہ ملنا اُسے مالک نہیں بنا دیتا۔

میاں نوازشریف کی جانب سے آج حاضری سے استثنا کی درخواست دی گئی جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کہا کہ یہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے، روز استثنا، روز استثنا، میں کچھ کہتا نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روز درخواست دائر کردیں، ہم دوسرے کام میں مصروف ہیں اس لیے میں کچھ نہیں کہتا، میں سوچ رہا تھا کہ سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد نوازشریف یہاں پیش ہوں گے۔

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے بتایا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کے بیان کے لیے آج کی تاریخ مقرر تھی۔

عدالت نے سابق وزیراعظم کی جانب سے آج حاضری سے استثنا کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں فلیگ شپ ریفرنس میں بیان قلمبند کرانے کے لیے کل طلب کرلیا۔

بعد ازاں عدالت نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔

عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔

نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔

شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی جو اس وقت ریفرنسز پر سماعت کر رہے ہیں۔

مزید خبریں :