پاکستان
Time 03 جنوری ، 2019

اصغر خان کیس: مدعا علیہ نے کوئی قانونی ثبوت پیش نہیں کیا: عبوری حکم نامہ

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کی ہے: فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا 3 صفحات پر مشتمل عبوری حکم نامہ جاری کردیا۔

عدالت نے ایئر مارشل (ر) اصغر خان کے قانونی ورثا کو نوٹسز جاری کیے ہیں جب کہ عدالتی حکم میں کہا گیا ہےکہ یہ پتا لگانے کے لیے کہ سیاست دانوں کو پیسے دیے یا نہیں، ایف آئی اے نے متعدد کارروائیاں کیں، ایف آئی اے نےحتمی رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ اہم گواہان کے بیانات میں خلاء ہے اور گواہان کے بیانات آپس میں مطابقت ہی نہیں رکھتے۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں سے متعلقہ پیرا بھی سپریم کورٹ کے حکم کا حصہ ہیں۔

عدالت نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ حقیقت سے واقف افراد کو رسیدوں اور رقم کی ادائیگیوں کے طریقہ کار کا نہیں پتا، اصلی رقم جو بینک اکاؤنٹس میں ٹراسفر کی گئی واضح نہیں، متعلقہ بینکوں نے بھی ایف آئی اے سے تعاون نہیں کیا۔

عبوری حکم کے مطابق متعلقہ بینکوں سے گزشتہ 24 سال کا ریکارڈ نہیں دیا گیا اور مدعا علیہ کی جانب سے کوئی قانونی ثبوت نہیں پیش کیا گیا، یہ کیس اصغر خان کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جو کہ اب نہیں رہے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کےلیے ملتوی کی ہے۔

اصغر خان کیس کا پس منظر

1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔

خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔

پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

اس معاملے پر ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔

اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔

سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔

مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔

سپریم کورٹ نے رواں برس مئی میں وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

مزید خبریں :