بھارت کی جانب سے کچھ شہروں میں بڑے دہشتگرد حملوں کا خدشہ، ذرائع


اسلام آباد: اعلیٰ حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہےکہ پاکستان پر میزائل حملے میں ناکامی کے بعد بھارت پاکستان کے کچھ شہروں میں بڑے دہشت گرد حملے کراسکتا ہے۔

جیونیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک کے میزبان اور سینئر صحافی حامد میر کے مطابق اعلیٰ حکومتی ذمہ دار نے بتایا کہ ’پاکستان اور بھارت کی حکومت کے درمیان اس وقت براہِ راست کوئی رابطہ نہیں‘۔

حامد میر کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ ’اس تمام تر صورتحال کے باوجود پاکستان اور بھارت کی سیکیورٹی ایجنسیز کے درمیان رابطہ برقرار ہے اور یہ رابطہ 27 اور 28 فروری کی رات کو بھی ہوا تھا‘۔

بھارت پاکستان پر میزائل حملہ کرنا چاہتا تھا: ذرائع

بھارت نے 26 اور 27 فروری کی درمیانی شب پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، پاک فضائیہ کے طیاروں نے بر وقت کارروائی کی تو بھارتی طیارے پے لوڈ کرکے بھاگ نکلے ۔

پاکستان نے اگلے ہی دن جوابی کارروائی کی اور اپنی حدود میں آنے والے 2 بھارتی طیارے مار گرائے ، ایک پائلٹ بھی گرفتار کر لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق بھارت اس جوابی کارروائی پر تلملا اٹھا اور اس نے پاکستان کے 6 سے 7 ایئر بیسز کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا لیکن پاکستان کے خفیہ ادارے نے اس منصوبے کا بروقت پتہ چلا لیا۔

پاکستان نے دوست ملکوں کے ذریعے بھارت کو پیغام بھیجا کہ اگر حملہ کیا تو ہمارا جواب تین گنا زیادہ طاقت ور ہوگا، تب جا کے بھارت اس منصوبے سے باز آیا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ ’پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیز کو اس حملے کا قبل از وقت پتا چلا جس پر ایجنسیز نے بھارتی ایجنسیز کو خبردار کیا کہ ہمیں آپ کے منصوبے کا پتا چل گیا ہے اس لیے اگر آپ حملہ کریں گے تو ہم بھی تیار بیٹھے ہیں، آپ کے حملے کی جو شدت ہوگی تو ہمارا حملہ اس سے تین گنا زیادہ ہوگا‘۔

حامد میر کے مطابق ذرائع نے کہا کہ ’پاکستان اور بھارت کے اس رابطے میں کچھ عالمی رہنماؤں کو بھی شامل کیا گیا اور اس طرح پاکستان کے خلاف یہ بڑا منصوبہ ٹل گیا جب کہ پاکستان اس سے قبل ہی بھارتی پائلٹ کی رہائی کا فیصلہ کرچکا تھا‘۔

مگر عیار دشمن نے ایک اور منصوبہ بنایا اور وہ تھا پاکستان پر میزائل حملے کا اور یہ حملہ بھارتی ریاست راجستھان سے پاکستان کے شہر بہالپور پر کیا جانا تھا۔

پاکستان نے پھر پیغام بھجوایا کہ بھر پور جواب دیں گے جس کے بعد بھارت نے یہ منصوبہ بھی ختم کر دیا۔ 

حامد میر نے مزید بتایا کہ ’یہ منصوبہ ناکام کرنے کے لیے پاکستان کی طرف سے کچھ تیسرے ممالک کی طرف سے بھارت کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان پر حملہ کیا گیا تو اس کا بھرپور طریقے سے جواب دیں گے‘۔

ذرائع کے مطابق ’اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اس سطح کی نہیں جو گزشتہ دنوں تھی تاہم اس وقت پاکستان کی حکومت، مسلح افواج اور ایجنسیز خبردار ہیں، بھارتی پائلٹ کی رہائی سے صورتحال تبدیل ہوئی ہے اور پاکستان کو انٹرنیشنل سطح پر سفارتی تعاون حاصل ہوچکا ہے‘۔

ذرائع نے بتایا کہ ’اس تمام صورتحال میں پہلے سعودی عرب، ترکی اور امریکا کا اہم کردار تھا لیکن اس کشیدگی کو کم کرنے میں برطانوی وزیراعظم نے پچھلے ایک دو دن میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کے دوست ممالک اور عالمی رہنما پاکستان سے بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا کہہ رہے ہیں لیکن پاکستان نے ان کو کہا ہےکہ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہےکہ ہم امن چاہتے ہیں، ہم نے پائلٹ کو رہا کرکے اس کا ثبوت دیا، اب مودی حکومت کو بھی عملی اقدام اٹھانا چاہیے جس سے پتا چلے کہ بھارت بھی پاکستان کے ساتھ امن چاہتا ہے‘۔

حامد میر کے مطابق اعلیٰ سطح کے حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ’بظاہر ایل او سی پر کشیدگی کم ہوگئی ہے لیکن پاکستان کے کچھ شہر دشمن کے ہدف پر ہیں، ہو سکتا ہے کہ اب وہ انٹرنیشنل بارڈر کراس نہ کریں بلکہ کوئی دہشت گرد حملہ کراسکتے ہیں، بھارت کچھ شہروں میں دہشت گرد حملے کرنا چاہ رہا ہے جس کی پاکستان کی جانب سے دوست ممالکت اور عالمی طاقتوں کو بھی اطلاع دے دی گئی ہے‘۔

پلوامہ حملے سےمتعلق ڈوزیئر میں ایکشن کے قابل شواہد نہیں: ذرائع

سینئر صحافی نے بتایا کہ حکومتی ذرائع کے مطابق ’پلوامہ حملے سے متعلق بھارت کی طرف سے جو ڈوزیئر دیا گیا ہے اس میں ابھی تک ایسے قابلِ عمل شواہد شیئر نہیں کیے گئے جس کی بنیاد پر پاکستان جیشِ محمد یا مسعود اظہر کے خلاف ایکشن لے‘۔

اعلیٰ سطح کے حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ’دسمبر 2018 میں حکومت نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ تمام تنظیمیں جو پاکستان میں کالعدم ہیں اور ان کے پاس ایک بڑی افرادی قوت ہے، ان تنطیموں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا جس کے تحت ان تنظیموں کے مدارس کو حکومت اپنی تحویل میں لے گی اور ان میں زیرِ تربیت طلبہ کی تعلیم و تربیت جاری رہے گی‘۔

حامد میر کے مطابق اعلیٰ ذمہ دار نے بتایا کہ ’اس سلسلے میں وزارتِ داخلہ اور دیگر حکومتی اداروں کو وزارتِ خزانہ کی طرف سے بھاری رقم مطلوب ہے جو اب تک فراہم نہیں کی گئی‘۔

مزید خبریں :