Time 15 مئی ، 2019
دنیا

ایران سے کشیدگی، امریکا کا غیر ضروری سفارتی عملے کو عراق سے انخلا کا حکم

بغداد میں امریکی سفارتخانے اور اربیل میں قونصل خانے کے 'غیر ہنگامی عملے' کو جتنا جلدی ممکن ہو عراق سے نکل جانے کا حکم، جرمن اور ڈچ فوج نے بھی عراقی فوجیوں کی تربیت کا سلسلہ روک دیا— فوٹو: فائل

ایران کے ساتھ جاری حالیہ کشیدگی کے پیش نظر امریکا نے تہران کے پڑوسی ملک عراق میں اپنے سفارتخانے اور قونصل خانے سے غیر ضروری عملے کو فوری طور پر ملک سے نکل جانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے اور اربیل میں موجود قونصل خانے کے 'غیر ہنگامی عملے' کو ہدایات دی ہیں کہ وہ جتنا جلدی ممکن ہو عراق سے نکل جائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ عراق میں موجود جرمن اور ڈچ فوج نے بھی عراقی فوجیوں کی تربیت کا سلسلہ روک دیا ہے۔

امریکی فوج کا کہنا ہے کہ انہیں خطے میں ایران کی حمایت یافتہ فورسز کے حوالے سے بعض خفیہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں جس کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کے لیے خطرے کی سطح کو بڑھادیا گیا ہے۔

تاہم شدت پسند تنظیم داعش کیخلاف قائم ہونے والے عالمی اتحاد کے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے نائب کمانڈر کرس گھیکا یہ کہہ چکے ہیں کہ عراق اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ فورسز سے کوئی خاص خطرہ نہیں ہے تاہم اب امریکا نے ان کے اس بیان کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے سفارتی عملے کو انخلا کا حکم دے دیا ہے۔

امریکا سفارتی عملے کو کیوں نکال رہا ہے؟

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کے حکام اور شہریوں کی سلامتی ہماری اولین ترجیح ہے اور ہمیں یقین ہے کہ عراقی سیکیورٹی سروسز ہمارے تحفظ کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں تاہم اس وقت خطرہ بہت زیادہ ہے اور ہم کوئی رسک نہیں لینا چاہتے۔

امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں امریکا اور اتحادیوں کی جانب سے سنگین خطرے کی مصدقہ اطلاعات ملی ہیں جس کے بعد عراق اور شام میں موجود تمام سروس ممبرز کو الرٹ رہنے کی ہدایات کردی گئی ہیں اور صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔

جرمنی کے وزارت دفاع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جرمن آرمی نے عراق میں اپنے ٹریننگ پروگرامز معطل کردیے ہیں۔ ترجمان وزارت دفاع نے بتایا کہ ہمیں ایران کے حمایت یافتہ فورسز کی جانب سے حملوں کے خطرات کا اشارہ ملا ہے تاہم عراق میں موجود 160 جرمن فوجیوں کو براہ راست کوئی دھمکی موصول نہیں ہوئی۔

ہالینڈ کے وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ عراق میں ڈچ فوجیوں نے بھی نامعلوم خطرات کے پیش نظر ٹریننگ مشن معطل کردیا ہے۔

امریکا کو اصل میں خطرہ کیا ہے؟

عراق میں موجود امریکی اہلکاروں کو ایران سے کیا خطرہ ہے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے عراقی سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ رواں ماہ جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عراق کا دورہ کیا تو انہوں نے عراقی کمانڈرز کو یہ بات بتائی کہ ان کے پاس خفیہ اطلاعات ہیں جن کے مطابق ایران کے حمایت یافتہ نیم فوجی جنگجوؤں نے ان فوجی اڈوں کی جانب اپنے راکٹس کا رخ کررکھا ہے جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ امریکا کی جانب سے پیغام واضح تھا اور وہ یہ کہ امریکی اس بات کی ضمانت چاہتے تھے کہ عراق امریکیوں کو درپیش اس خطرے سے محفوظ رکھے۔ امریکا نے یہ کہہ دیا تھا کہ اگر عراقی سرزمین پر امریکا حملے کی زد میں آیا تو وہ اپنے دفاع کیلئے بغداد کو اعتماد میں لیے بغیر ہی یکطرفہ کارروائی کا حق رکھتا ہے۔

اس حوالے سے عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ انہیں ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی جس سے کسی فریق کو خطرہ لاحق ہو۔

خیال رہے کہ عراق میں داعش کو شکست دینے میں ان نیم فوجی دستوں نے اہم کردار ادا کیا جن کی تربیت ایران نے کی اور انہیں اسلحہ بھی فراہم کیا۔ گزشتہ برس ان دستوں کو باضابطہ طور پر عراقی فوج میں شامل کرلیا گیا تھا تاہم یہ اب بھی کسی حد تک اپنی مرضی سے آپریٹ کرتے ہیں۔

ان میں سے ہی دو گروپس کے ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ امریکی دستوں کو درپیش خطرات کی باتیں امریکا کی جانب سے شروع کی گئی نفسیاتی جنگ کے سلسلے کی ہی کڑی ہے۔

یاد رہے کہ ایران میں امریکا کی سفارتی موجودگی نہیں ہے اور وہاں سوئس سفارتخانہ امریکا کیلئے بھی خدمات انجام دیتا ہے۔

امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کیوں بڑھ رہی ہے؟

رواں ماہ کے آغاز میں امریکا نے ایرانی تیل کی درآمدات پر دی گئی چھوٹ ختم کردی اور خبردار کیا کہ اب جو بھی ملک ایران سے تیل خریدے گا اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایران نے امریکا کے اس اقدام کی مذمت کی اور اسے معاشی دہشت گردی قرار دیا۔ ساتھ ہی ایران نے 2015 میں ہونے والے عالمی جوہری معاہدے کے اہم حصے سے دستبردار ہونے کا بھی اعلان کردیا جس سے امریکا گزشتہ برس ہی پیچھے ہٹ چکا ہے۔

بعد ازاں امریکا نے اپنا بحری بیڑہ اور بی 52 بمبار طیارے خلیج فارس کی جانب روانہ کردیے جس نے ایران کو مزید مشتعل کردیا اور تہران نے بیان دیا کہ خلیج فارس میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار امریکا ہوگا۔

ایران نے امریکی صف بندی کو نفسیاتی جنگی حربہ قرار دیا جس کا مقصد ان کے ملک کو دھمکانا ہے۔

اس حوالے سے پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا لیکن واشنگٹن خطے کے مفاد اور امریکی فوج کے دفاع کے لیے تیار ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ محکمہ دفاع خطے میں ایران کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

مزید خبریں :