قیادت کیلئے ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جس کی انفرادی کارکردگی باقی سب سے بہتر ہو، ٹیم کو ہمیشہ فرنٹ سے لیڈ کرنا جانتا ہو
15 جولائی ، 2019
کپتان وہ شخص ہوتا ہے جو پوری ٹیم کو متحرک کرتا ہے، ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کی ٹیم پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں اور جو مختلف افراد پر مشتمل ایک ٹیم کو مشترکہ مقصد کے حصول کیلئے کام کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قیادت کیلئے ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جس کی انفرادی کارکردگی باقی سب سے بہتر ہو، ٹیم کو ہمیشہ فرںٹ سے لیڈ کرنا جانتا ہو، مشکل صورتحال میں ایسے فیصلے کرے جو ٹیم کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں۔
اسی طرح ٹیم میں کپتان کی انفرادی کارکردگی ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتی ہے، اگر کپتان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا تو وہ دیگر کھلاڑیوں کیلئے آئیڈیل بن جائے گا اور باقی کھلاڑی بھی چاہیں گے کہ وہ اچھی پرفارمنس دیں۔
اس کے برعکس اگر کپتان کی اپنی کارکردگی مایوس کن ہوگی تو اس سے ایسے عناصر کو شے ملے گی جو کپتان کا دھڑن تختہ چاہتے ہیں اور اپنی پسند کے کسی کھلاڑی کو قیادت دلوانا چاہتے ہیں، ایسے سازشی عناصر کو لگام ڈالنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، کپتان کی جاندار پرفارمنس۔
انگلینڈ میں ہونے والے حالیہ ورلڈکپ میں جہاں ٹیموں نے مجموعی طور پر اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہیں کچھ ٹیموں کے کپتانوں نے بھی اپنی ٹیم کی کامیابی میں برابر کا حصہ ڈالا۔
آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ ورلڈکپ میں شریک ٹیموں کے کپتانوں کی کیا کاکردگی رہی، انہوں نے قیادت کا فرض درست طریقے سے ادا کیا یا اس میں ناکام رہے؟
نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن کی بات کی جائے تو ون ڈے کیرئیر میں دائیں ہاتھ کے بلے باز 149میچز میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 47.90 کی اوسط سے 6132 رنز بنا چکے ہیں جس میں 13 سنچریاں اور 39 نصف سنچریاں شامل ہیں۔
ورلڈکپ 2019 میں کارکردگی
نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے حالیہ ورلڈ کپ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا کیوی کپتان نے اپنی ٹیم کو فائنل تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا،دنیا کی دیگر ٹیموں کے کپتانوں کے مقابلے میں کیوی کپتان کی کارکردگی سب سے بہترین رہی انھوں نے 10 میچز کی 9 اننگز میں 578 رنز اسکور کئے جو کسی بھی کپتان کے ایک ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز ہیں۔
اس کے علاوہ ولیمسن بہترین پر فارمنس پر ورلڈ کپ 2019 کے پلئیرآف دی ٹورنامنٹ بھی قرار پائے جبکہ آئی سی سی کی ٹیم آف ٹورنامنٹ کی قیادت بھی کین ولیمسن کو سونپی گئی۔
ولیمسن کی اس شاندار اننگز کون بھول سکتا ہے جب ان کی ٹیم جنوبی افریقا کے خلاف مشکل سے دوچار تھی، اس موقع پر ولیمسن نے کریز پر رہ کر اپنی ٹیم کیلئے سنچری اسکور کرنے کے ساتھ ساتھ کامیابی بھی دلوائی۔
ایرون فنچ
آسٹریلوی کپتان ایرون فنچ اپنی جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے مشہور ہیں، دائیں ہاتھ کے اوپننگ بلے باز ون ڈے انٹرنیشنل میں آسٹریلیا کی طرف سے 119 میچز میں 4559 بنا چکے ہیں جس میں 15 سنچریاں اور 24 نصف سنچریاں شامل ہیں۔
ورلڈکپ 2019 میں کارکردگی
حالیہ ورلڈ کپ میں ایرون فنچ شاندار فارم میں دکھائی دیے، اوپنر نے 10میچز میں 507 رنز اسکور کیے جس میں 2 سنچریاں اور سری لنکا کے خلاف 153 رنز کی ناقابل شکست اننگز بھی شامل ہے۔
بھارتی کپتان ویرات کوہلی
بھارتی کپتان ویرات کوہلی جو دور حاضر کے بلاشبہ بہترین بیٹسمین ہیں وہ بھی اپنی ٹیم کی جیت میں ہمیشہ کردار ادا کرنے میں آگے آگے ہو تے ہیں چاہے وہ کپتانی میں اہم فیصلے ہوں یا پھر بیٹنگ کرتے ہوئے لمبی اننگز، ہمیشہ ہی اپنی ٹیم کیلئے فائدے مند ثابت ہو تے ہیں۔
دائیں ہاتھ کے بلے باز بھارت کی جانب سے 236 ون ڈے میچز میں نمائندگی کرتے ہو ئے 59.40 کی شاندار اوسط کی بدولت 11286 رنز بنا چکے ہیں۔ ان کے شاندار ون ڈے کیریئر میں 41 سنچریاں شامل ہیں جو 236 میچز میں کسی بھی بیٹسمین کی جانب سے سب سے زیادہ سنچریاں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 54 نصف سنچریاں بھی کررکھی ہیں۔
ورلڈکپ 2019 میں کارکردگی
انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم کی شاندار کارکردگی میں کپتان ویرات کوہلی کا بھی اہم کردار رہا۔کنگ کوہلی ورلڈ کپ 2019میں کوئی سنچری تو اسکور نہیں کر سکے البتہ انہوں نے 9 میچز میں 442 رنز بنائے جس میں مسلسل 5 نصف سنچریاں شامل ہیں۔
جنوبی افریقی کپتان فاف ڈوپلیسی
جنوبی افریقی کپتان اور مڈل آرڈر بلے باز فاف ڈوپلیسی اپنی ٹیم کی بیٹنگ لائن میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سابق کپتان اے بی ڈی ویلیئرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈوپلیسی نے ٹیم کی قیادت سنبھالی۔
دائیں ہاتھ کے بلے باز جنوبی افریقا کی طرف سے 143 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں نمائندگی کر چکے ہیں،جس میں انہوں نے 47.47 کی اوسط سے 5507 رنز بنائے ہیں، ان کے کیریئر میں 12 سنچریاں اور 35 نصف سنچریاں شامل ہیں۔
ورلڈکپ 2019 میں کارکردگی
حالیہ ورلڈکپ میں جنوبی افریقی ٹیم کی کاردگی تو متاثر کن نہیں رہی اور اسے 9 میچز میں سے صرف 3 میں کامیابی مل سکی البتہ کپتان ڈوپلیسی کی پرفارمنس بہترین رہی۔انہوں نے 9 میچز کی 8 اننگز میں 387 رنز بنائے جس میں آسٹریلیا کے خلاف شاندار سنچری شامل ہے۔
انگلش کپتان اوئن مورگن
انگلش ٹیم کی گزشتہ دو سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کی کامیابیوں میں کپتان اوئن مورگن کا بھی بھرپور کردار رہا ہے۔انگلش ٹیم کے کپتان اوئن مورگن 233 میچز میں انگلینڈ کی نمائندگی کرچکے ہیں جس میں انہوں نے 39.71کی اوسط سے 7348 رنز اسکور کیے ہیں ان کے ون ڈے کیریئر میں 13سنچریاں اور 46نصف سنچریاں ہیں۔جارح مزاج بلے باز اپنے ایک روزہ انٹرنیشنل کیریئر میں 211 چھکے بھی لگا چکے ہیں۔
ورلڈکپ 2019 میں کارکرگی
بائیں ہاتھ کے بلے باز نے حالیہ ورلڈ کپ کے 11میچز کی10اننگز میں 371رنز اسکور کئے ہیں جن میں افغانستان کے خلاف ریکارڈ ساز اننگز بھی شامل ہے۔ اس میچ میں انگلش کپتان نے 17 چھکوں کی مدد سے برق رفتار 148 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی۔
پاکستانی کپتان سرفراز احمد
سرفراز احمد کے ون ڈے کیریئر پر غور کریں تو سرفراز احمد نے 2007 میں بھارت کے خلاف اپنے ون ڈے کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ اب تک 114 ون ڈے میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں جن میں انہوں نے 34.40 کی اوسط سے 2271 رنز بنائے ہیں۔
ون ڈے انٹرنیشنل میں سرفراز احمد اب تک صرف 2سنچریاں اور 11 نصف سنچریاں اسکور کرسکے ہیں جبکہ ون ڈے کیریئر میں وہ محض 12 چھکے ہی مار سکے ہیں، ان کا بہترین اسکور 105 ہے۔
ورلڈ کپ 2019 میں کارکردگی
حالیہ ورلڈکپ میں کپتان سرفراز احمد کی کارکردگی کی بات کریں تو پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان 8 میچز میں صرف 143 رنز ہی اسکور کر سکے جس میں انگلینڈ کے خلاف 1 نصف سنچری شامل ہے۔
باقی ٹیموں کے کپتان اور ہمارے سرفراز
ورلڈکپ 2019 سب سے زیادہ رنز بنانے والے 50 بلے بازوں میں ہمارے کپتان دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے جبکہ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ افغانستان ٹیم کے کپتان گل بدین نائب 194 رنز بناکر اس فہرست میں شامل ہیں۔ افغانستان کے 4 کھلاڑی ٹاپ 50 میں موجود ہیں جنہوں نے سرفراز سے اچھی بیٹنگ کی۔
ورلڈکپ 2019 میں سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلنے والوں کی فہرست میں 3 کپتان موجود ہیں،آسٹریلوی کپتان کی 153 رنز ،کیوی کپتان ولیمسن اور انگلش کپتان مورگن کی 148 ،148 رنز کی شاندار اننگز فہرست میں شامل ہیں۔
اب اگر انفرادی کارکردگی کے حوالے سے موازنہ کیا جائے تو افغانستان کا کپتان رنز بنانے کے اعتبار سے پاکستان ٹیم کے کپتان سے زیادہ بہتر ہے۔
ورلڈکپ 2019 میں دوسری ٹیموں کے کپتان اپنی ٹیموں کی جیت میں کردارادا کرتے نظر آئے جس میں اوئن مورگن کی 17چکھوں کی مدد سے 148رنز کی شاندار اننگز اور کیوی کپتان کین ولیمسن کی جنوبی افریقا کے خلاف دباؤ سے بھرپور 100 رنز کی اننگز بھی شامل ہیں۔
پہلا موقع
کپتان سرفراز احمد کے پاس بھی ایسے کئی مواقع آئے جب وہ ٹیم کی جیت میں اپنا کردار ادا کرسکتے تھے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ پہلا موقع آسٹریلیا کے خلاف میچ میں آیا جب پاکستان ٹیم آسٹریلیا کے دیے گئے 308 رنز کے ہدف کے تعاقب میں مشکل میں تھی۔
45 ویں اوور کی پانچویں گیند پر شاہین شاہ آفریدی اسٹرائیک پر تھے اور پاکستان کو 43 رنز درکار تھے جبکہ پاکستان کی صرف ایک وکٹ باقی تھی، ایسے موقع پر کپتان نے آخری گیند پر شاہین آفریدی کو سنگل لینے دیا اور بجائے خود سامنا کرنے کے ٹیل اینڈر کو اسٹرائیک دے دی، اسے غیر ذمہ داری کہیں یا بزدلی کہ بطور کپتان اور بیٹسمین ذمہ داری لینے کے بجائے آپ نے ٹیل اینڈر کو اسٹرائیک دے دی۔
شاہین نے اوور میں سامنا تو کیا لیکن وہ آؤٹ نہیں ہوئے اور ہمارے کپتان جو دوسرے اینڈ پر رہنا پسند کرتے ہیں وہ دوسرے اینڈ پر ہی رن آؤٹ ہوگئے اور پاکستان جیتا ہوا میچ ہار گیا۔
سرفرازاحمد کی جگہ کوئی اور کپتان ہوتا تو وہ کبھی آخری گیند پر سنگل نہ لیتا اور اگلے اوور میں خود سامنا کرکے اپنی ٹیم کو جیت دلوانے کی کوشش کرتا۔
تو کیا سرفراز بیٹنگ کرنے سے ڈرتے ہیں؟
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرفراز بیٹنگ سے ڈرتے ہیں؟ سرفراز کو پسند کرنے والے بھی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان میں بڑے اسٹروکس کھیلنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔
مشکل موقعوں پر جہاں دوسری ٹیموں کے کپتان اوپر کے نمبروں پر آکر بڑی انگز کھیلتے ہیں وہیں ہمارے کپتان بیٹنگ کرنے سے اتنا ڈرتے ہیں کہ اپنی جگہ ٹیل اینڈرز کو بیٹنگ کرنے بھیج دیتے ہیں۔ وہ نہ تو جلدی بیٹنگ کرنے آتے ہیں اور نہ ہی نیچے کے نمبرز پر آکر بڑی اننگز کھیلتے ہیں۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ بولر حسن علی، وہاب ریاض اور شاداب خان کو بھی سرفراز خود سے اوپر بھیج دیتے ہیں۔
یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ اگر آپ نے جلدی بھی نہیں آنا بیٹنگ پر اور نہ ہی نیچے کھیلنا ہے تو کیا بطور بیٹسمین آپ کی ٹیم میں جگہ بھی بنتی ہے یا نہیں؟اس کا جواب تو سلیکشن کمیٹی ہی بہتر دے سکتی ہے کہ انہوں نے کس بنیاد پر سرفراز کو ٹیم میں منتخب کیا ہوا ہے۔
دوسرا موقع
سرفراز کو دوسرا موقع افغانستان کے خلاف میچ میں ملا جہاں 228 رنز کا ہدف ہماری ٹیم کو 428 رنز کا لگ رہا تھا، ہماری بیٹنگ لائن ایک بار پھر لڑ کھڑا گئی تھی۔
121 کے مجموعی اسکور پر جب قومی ٹیم کے 4 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے تو ہمارےکپتان سرفراز احمد بیٹنگ کرنے کیلئے آئے، توقع یہی کی جارہی تھی کے آج کپتان ذمہ درانہ اننگز کھیل کر پاکستان کو کامیابی دلوائیں گے۔
لیکن شائقین کی کپتان سے لگی امیدیں ایک بار پھر ٹوٹ گئیں اور سرفراز ایک بار پھر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہو ئے دھوکہ دے گئے، وہ غیر ضروری 2 رنز لیتے ہوئے رن آؤٹ ہوکر اور ٹیم کو مشکل میں تنہا چھوڑ کر پویلین لوٹ گئے۔
ہائے ہمارا کپتان! بیچارہ بولرز کے ہاتھوں کم آؤٹ ہوتا ہے اور رن آؤٹ زیادہ ہوتا ہے حالیہ ورلڈکپ میں ہمارے کپتان دو بار رن آؤٹ ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ جو کھلاڑی زیادہ رن آؤٹ ہو اس کی فٹنس اچھی نہیں ہوتی۔
وہ تو بھلا ہو ہمارے آل راؤنڈر عماد وسیم اور فاسٹ بولر وہاب ریاض کا جنہوں نے بہترین کارکردگی دکھا کر افغانستان کے خلاف ذلت بھری شکست سے ٹیم کو بچالیا۔
سرفراز احمد کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ چونکہ وہ پانچویں نمبر پر آتے ہیں لہٰذا ان سے سنچری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ہم بھی اس بات سے متفق ہیں لیکن یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ سرفراز آخری اوورز میں آکر بھی ناٹ آؤٹ نہیں جاتے، اگر انہیں کھیلنے کیلئے اوورز کم ملتے ہیں تو وہ ناٹ آؤٹ رہ کر آخری اوورز میں جارحانہ بیٹنگ تو کرسکتے ہیں۔
پہلا فیصلہ
سرفراز احمد کی کارکردگی کی طرح ان کے فیصلے بھی نرالے ہیں، حالیہ ورلڈکپ میں قومی کپتان کے کچھ فیصلے ایسے تھے جنہوں نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا۔سب سے پہلے حارث سہیل کو ابتدائی میچز میں ٹیم میں شامل نہ کرنا۔ حارث سہیل نے آسٹریلیا کے خلاف سریز میں 2 سنچریاں جڑی تھیں لیکن ہمارے سب سے سینیئر کھلاڑی جو 20 سال سے ہماری کرکٹ کی 'خدمت' کررہے تھے انہیں حارث سہیل پر فوقیت دی گئی۔
شکر ہے بھارت سے ہار کے بعد ٹیم مینجمنٹ اور کپتان کو خیال آیا کہ حارث سہیل کو ٹیم میں شامل کرنا ہے جس کے بعد حارث نے اپنی سلیکشن کو درست بھی ثابت کیا اور جنوبی افریقا کے خلاف بہترین اننگز کھیلی۔
دوسرا فیصلہ
سرفراز کا دوسرا حیران کن فیصلہ آؤٹ آف فارم فاسٹ بولر حسن علی کو نوجوان بولر شاہین شاہ پر فوقیت دینا تھا۔ حسن علی جو شاید پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اپنا جنریٹر نہیں چلا پا رہے تھے، انھیں ہر میچ میں دھلائی کے باوجود کھلایا جاتا رہا۔ بھارت کیخلاف 9 اوورز میں 84 رنز دینے کے بعد سرفراز اور منیجمنٹ کو ہوش آیا کہ حسن علی سے بولنگ نہیں ہورہی اور پھر انہوں نے شاہین آفریدی کو موقع دیا جنہوں نے 5 میچز میں 16 وکٹیں حاصل کرکے کپتان کے مسلسل حسن علی کو کھلانے کے فیصلے پر سوالیہ نشان لگادیا۔
نوجوان بولر شاہین کو اگر ابتدائی میچز میں موقع دیا جاتا تو شاید پاکستان ٹیم سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیتی۔
تیسرا فیصلہ
ورلڈکپ ٹیم میں سرپرائز پیکج کے طور پر شامل ہونے والے تیز رفتار بولر محمد حسنین کو سلیکشن کمیٹی دوسری ٹیموں کو سرپرائز کرنے کیلئے محمد عامر کی جگہ انگلینڈ لے کر آئی تھی لیکن انہیں ایک بھی میچ نہیں کھلایا گیا، اس فیصلے پر شائقین سرپرائزڈ ہیں۔
گویا حسنین ایسا سرپرائز تھے جو کسی کو دیا ہی نہیں گیا بلکہ ٹیم مینجمنٹ نے انھیں 2 مہینے انگلیںڈ کی سیر کرواکر خوشگوار سرپرائز دیا۔
محمد حسنین کو بنگلادیش کے خلاف میچ میں کھلایا جاسکتا تھا کیوں کہ وہ میچ پاکستان کے لیے بے معنی ہوچکا تھا۔
اس کے علاوہ افغانستان کے خلاف میچ میں بھی انجرڈ وہاب ریاض کی جگہ حسنین کو ٹیم میں شامل کیا جاسکتا تھا لیکن کپتان اور ٹیم انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک انجرڈ کھلاڑی کو کھلایا جائے اور سرپرائز کو سرپرائز ہی رہنے دیا جائے۔
ہمارا کپتان کیسا ہو؟
دنیا میں جہاں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے وہاں کپتانی کے حوالے سے یہی تصور کیا جاتا ہے کے کپتان اس کھلاڑی کو بنانا چاہیے جس کی کارکردگی ٹیم کے باقی کھلاڑیوں سے سب سے اچھی ہو کیونکہ کپتان ٹیم میں ایک رول ماڈل کی طرح ہوتا ہے کہ جب کپتان کی کارکردگی اچھی ہوگی تو دوسرے کھلاڑیوں پر دباؤ ہوگا کہ ہمیں بھی اچھی کارکردگی دکھانی ہے ورنہ ٹیم میں جگہ نہیں بنے گی۔
لیکن اگر کپتان کی کار کردگی ہی اچھی نہیں ہو گی تو وہ کس منہ سے کھلاڑیوں کو اچھی کارکردگی نہ دکھانے پر ٹیم سے باہر کرے گا؟
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں کپتان کا انتخاب پی ایس ایل میں کپتانی کے تجربے اور عوام میں مقبولیت کی وجہ سے کیا جانے لگا ہے خواہ اس کی انفرادی کارکردگی کچھ بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس آپ کی ٹیم پی ایس ایل کا ٹائٹل جیت جاتی ہے یا فائنل میں پہنچ جاتی ہے اس کےعلاوہ آپ عوام میں مقبول ہیں تو آپ قومی ٹیم کے کپتان بن سکتے ہیں۔
اچھے قائد کے فقدان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس کوئی اور آپشنز موجود نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم آپشنز تیار کرتے ہیں، نہ ہی ہماری ٹیم میں وائس کپتان بنانے کا تصور ہے کہ ٹیم میں وائس کپتان بناکر اسے گروم کیا جائے تا کہ آنے والے وقتوں میں وہ قومی ٹیم کی قیادت کرسکے۔
کپتان کی مایوس کن پرفارمنس کی وجہ سے ٹیم میں گروپنگ کی خبریں بھی زبان زد عام ہوجاتی ہیں۔ جب کپتان کی انفرادی کارکردگی اچھی نہیں ہوگی تو دوسرے کھلاڑی جو اچھا پر فارم کر رہے ہیں وہ گروپ تو بنائیں گے کیونکہ جب ایک بندہ جو کپتانی کا اہل نہیں ہے اس کو اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں پر فوقیت دی جائے گی تو پھر گروپنگ تو ہوگی جس کا نقصان کسی اور کو نہیں ہماری کرکٹ ٹیم کو ہوتا ہے۔
قومی کرکٹ ٹیم کی حالیہ ورلڈکپ پرفارمنس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیم میں کپتان کا پرفارم کرنا کتنا ضروری ہو تا ہے، اگر ہمیں آنے والے برسوں میں بڑی ٹیموں کو ہرانا ہے اور آئی سی سی ٹورنامنٹس جیتنے ہیں تو ایسے کھلاڑی کو ٹیم کی کمانڈ سونپنی ہوگی جس کی انفرادی کارکردگی ہو، وہ مرد بحران ہو، نڈر بھی ہو اور ٹیم کے فائدے کیلئے بروقت جرات مندانہ فیصلے بھی کرسکے۔
کپتان کا انتخاب اس کی انفرادی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اور ٹیم میں نائب کپتان بنانے کی روایت بھی ڈالنی ہوگی ورنہ جو بھارت کے خلاف شکست کے بعد سرفراز کے ساتھ ہوا وہ آنے والے کپتانوں کے ساتھ بھی ہوگا۔