اب بھی وقت ہے، کچھ ایسا نہ کریں جو اللہ کی نافرمانی کے زمرے میں آ جائے

فوٹو: فائل

جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے اسکولوں، کالجوں میں طالبات کے لیے پردہ کرنے کے احکامات دیسی لبرلز اور میڈیا کے ایک مخصوص طبقہ کی مہم کے بعد ڈر کر واپس لے لیے۔

چند سال قبل یہی کچھ پنجاب میں ہوا تھا جہاں ہائر ایجوکیشن کے صوبائی وزیر نے اسلامی لباس پہننے کے رواج کو فروغ دینے کے لیے طالبات کو حاضری میں کچھ رعایت دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس پر میڈیا میں موجود لبرل طبقہ نے آسمان سر پر اُٹھا لیا جیسے کوئی بہت بڑا جرم سرزد ہو گیا ہو، اس پر اُس وقت کی شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے ڈر کر فوری معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔

لبرل طبقہ اور میڈیا سے ڈرنے والوں نے نہ پہلے سوچا، نہ اب کہ وہ کس کے دباؤ میں اللہ کے حکم کے نفاذ کے فیصلے کو واپس لے رہے ہیں۔ دیسی لبرلز اور میڈیا سے ڈرنے والوں کو کیا اپنے اللہ کو جواب نہیں دینا؟

ن لیگ ماضی میں اپنے آپ کو اسلامی نظریہ سے جوڑتی رہی اور اس کے سربراہ نواز شریف یہ وعدہ کرتے رہے کہ اگر وہ تیسری بار وزیراعظم بنے تو پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے لیکن 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف حکومت نے ایک تاریخی یو ٹرن لیتے ہوئے بار بار پاکستان کو لبرل اور پروگریسیو ریاست بنانے کی باتیں شروع کر دیں اور کچھ ایسے انتہائی متنازع اقدامات کیے جن کا مقصد لبرل اور سیکولر طبقہ کو خوش کرنا تھا لیکن ان اقدامات سے اسلام پسندوں کو بہت تکلیف ہوئی۔

اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اُن کی اہلیہ کلثوم نواز مرحومہ، اسحاق ڈار، حسین نواز اور کیپٹن (ر) صفدر وغیرہ نے کچھ ایسے اقدامات سے روکنے کی کوشش بھی کی لیکن میاں صاحب نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا، جس سے لبرل اور سیکولر طبقہ تو خوش ہو گیا لیکن میاں صاحب کی حکومت کے بُرے دن شروع ہو گئے اور آخر کار اُنہیں متنازع اور کمزور کیسوں کے ذریعے سے نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر دیا گیا بلکہ جیل بھی بھیج دیا گیا۔

جب میاں صاحب وزارتِ عظمیٰ سے باہر ہوئے تو ایک ملاقات میں مَیں نے اُنہیں کہا تھا کہ اُن کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اپنی حکومت کے دوران اُنہوں نے کچھ ایسا تو نہیں کیا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گئے ہوں۔

نواز شریف سے اپنی تمام تر مخالفت اور نفرت کے باوجود، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب عمران خان بھی ان معاملات میں میاں صاحب کی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ خان صاحب وعدہ کر کے آئے اور اب بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے عظیم ماڈل کو سامنے رکھ اُس کے مطابق تبدیل کیا جائے گا لیکن وہ، اُن کی حکومت اور جماعت جو کر رہے ہیں۔

وہ اس وعدے کے بالکل الٹ ہے۔ ریاستِ مدینہ کا نام لینے والوں نے سود کو ختم کرنے کے بجائے بڑھاوا دیا، شراب فروخت کرنے والوں کو سزا دینے کے بجائے غیر قانونی شراب کا دھندہ کرنے والوں کو پکڑنے اور چھاپہ مارنے والوں کو ہی تبدیل کر دیا اور اب خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے اسکول، کالج کی طالبات کے لیے پردہ کرنے کا حکم جاری کرنے کے بعد اُسے فوری واپس لے لیا۔

یہ وہ اقدامات ہیں جن کا تعلق دین سے ہے لیکن ان معاملات میں خان صاحب اور ان کی حکومت نے وہ کیا جو ریاستِ مدینہ کے اصولوں کی ضد تھی۔

عورت کے لیے گھر سے نکلتے وقت پردہ کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے لیکن جس طریقہ سے اس اسلامی حکم کے نفاذ کا اعلان کر کے تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت نے اُسے واپس لیا، اُس سے نہ صرف اسلامی قوانین کے نفاذ اور آئینِ پاکستان کی نفی ہوئی بلکہ پاکستان کی اکثریت جو پردہ کی حامی ہے، کے دل بھی دکھے۔

عمران خان کے پاس شاید اب بھی وقت ہے، سوچ لیں اور سمجھ بھی لیں کہ اپنے مخالفوں سے جو مرضی آئے سیاست کریں لیکن ریاستِ مدینہ اور اسلام کا بار بار نام لے کر کچھ ایسا نہ کریں جو اللہ کی نافرمانی کے زمرے میں آجائے۔

مجھے نہیں معلوم مولانا فضل الرحمٰن خان صاحب کی حکومت کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں یا نہیں، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ صحافی حضرات جو اس تبدیلی کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے سچ جھوٹ بیچتے ہوئے خان صاحب کے ساتھ بڑے بڑے خواب عوام کو بیچتے تھے، وہ اب اتنے اُکھڑے اکھڑے کیوں ہیں اور کیوں ایسے اشارے دے رہے ہیں جیسے خان صاحب کی حکومت کے لیے آئندہ چند ماہ خطرناک ہو سکتے ہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے جس سے ہم سب کو ڈرنا چاہئے۔

مزید خبریں :