14 اکتوبر ، 2019
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف اپنا جواب الجواب عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جواب الجواب میں کہا گیا ہےکہ اہلخانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کا پابند نہیں، اہلیہ اوربچے میرے زیر کفالت نہیں اس وجہ سے مالی معاملات کا علم نہیں، اہلیہ اور بچوں کی زیرملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جاسکتا۔
جواب میں کہا گیا ہےکہ صدارتی ریفرنس کا مقصد ججوں کی عیب جوئی اور ان کو خاموش کرانا ہے،الزام لگا کر میری شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ پہلی جائیداد 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈ پاکستانی 2 کروڑ 60 لاکھ روپے میں خریدی، دیگر 2 جائیدادیں 2013 میں بالترتیب 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ اور 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ میں خریدیں، تمام جائیدادوں کی مالیت مل کر بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ایک کنال کی قیمت سے کم ہے۔
معزز جج کے جواب کے مطابق کراچی میں 1600 مربع گز کا گھرہے جو پچھلے 10 سال سے خالی ہے، بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کوئٹہ اور جج سپریم کورٹ اسلام آباد میں رہائش پذیر رہا ہوں، لندن یا بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور نا ہی اہلیہ کی دوہری شہریت ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے اپنے جواب الجواب میں اعتراض اٹھایا کہ کونسل کا جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرانا درست نہیں، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانےکی اجازت کا ریکارڈ موجود نہیں، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کا جواب جمع کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے، اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورے دیتا ہے نا کہ نجی پریکٹس کرے۔
معزز جج نے اپنے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف دائرہ اختیار سے باہر جانے پر کارروائی کا حکم دیا، کونسل کو اختیار حاصل نہیں تھا کہ اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی ذمہ داری دیتی، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو اپنا وکیل تفویض کرنا آئین کی شق 100 کی خلاف ورزی ہے۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل انور منصورخان وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں، بطور وفاقی حکومت کی نمائندگی یہ عمل آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، اٹارنی جنرل کوکارروائی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا جس کیلئے وفاق نےانہیں مختص نہیں کیا،کسی وکیل کو جج کے ساتھ کسی نجی معاملے پر بات چیت یا بحث نہیں کرنی چاہیے، کونسل اور سیکریٹری کے مناسب جواب نا آنے پر الزامات کو تسلیم شدہ تصور کیا جائے۔
ریفرنس کی سماعت
دوسری جانب جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجربینچ نے سماعت کی جس میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔
دورانِ سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیےکہ وکیل اجمل محمود نے میرے خلاف جو ریفرنس دائرکیا تھا وہ نمٹایا جاچکا، عدالت میں موجود روسٹرم پرکوئی غیر متعلقہ بندہ آئندہ نہیں آنا چاہیے، سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی اس روسٹرم کے محافظ ہیں۔
عدالت نے صدارتی ریفرنس کےخلاف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی درخواست کی سماعت منگل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
ججز کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کردیا ہے۔