Time 23 اکتوبر ، 2019
پاکستان

جوابِ شکوہ (اقبال سے پھر معذرت)

مسلمانو! تم کہتے ہو کہ یہ ملک تم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا، تمہارا یہ بھی دعوی ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ کی ہے اور تم اُس کی متعین کردہ حدود میں رہ کر یہ اختیار استعمال کرنے کے پابند ہو، ایسا تم نے آئین میں لکھ رکھا ہے مگر یہ بھی تو بتلاؤ کہ کیا حقیقت میں تم نے کبھی اُن حدود و قیود کا احترام کیا؟

قران و سنت کی پاسداری کا تمہیں دعویٰ ہے تو ذرا قران کھولو اور پڑھو کہ اللہ اس میں فرماتا ہے ’’جو شخص اپنا عہد پورا کرے اور پرہیز گاری کرے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے‘‘(آل عمران ،3:76)۔

اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کا آئین ایک عہد نامہ تھا، ریاست اور عوم کے درمیان، اس عہد نامے کی پامالی کو تم نے جرم سمجھا نہ گناہ، اُس پر تمہیں کوئی پشیمانی ہوئی اور نہ کسی کو سزا دی، جب کہ اللہ کے نبیﷺ کی تعلیمات میں سے ایک بنیادی حکم یہ ہے کہ عہد کو ہر حال میں نبھاؤ۔

تم اپنا عہد توڑتے ہو اور اِس پر ذرا بھی شرمسار نہیں، ایسے میں تم کس منہ سے خدا اور اس کے رسولﷺ کی شفاعت کے طلب گار ہو، کیسے یہ امید رکھتے ہو کہ اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل کرے گا؟ دراصل تم نے وظیفوں اور عملیات کو اسلام سمجھ لیا ہے، کرامات کے انتظار میں رہتے ہو، سستی اور کاہلی تمہاری گھٹی میں پڑی ہے۔

کبھی تمہیں کسی مسیحا کی تلاش ہوتی ہے تو کبھی کسی مردِ مومن کے پیچھے چل پڑتے ہو، اپنے گریبان میں جھانکنے کی مگر زحمت نہیں کرتے۔ نماز میں اھدنا الصراط المستقیم پڑھتے ہو اور سلام پھیر کر ملاوٹ کرنے نکل جاتے ہو، یتیم کا مال کھاتے ہو اور مسجد کے مولوی کو چندہ دے کر سمجھتے ہو کہ تم نے پلی بارگین کر لیا، ذخیرہ اندوزی کرتے ہو اور پھر عمرہ کر کے مطمئن ہو جاتے ہو کہ تمہارے گناہ از خود معاف ہو گئے، ملاوٹ کرکے منہ پر کالک ملتے ہو اور پھر حج کر کے سمجھتے ہو کہ تمہارا چہرہ دھل گیا۔

ایسے میں حدیث مبارکہ تمہیں بھول جاتی ہے کہ جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں! کیا تم نے اللہ کو ایسا سمجھ رکھا ہے کہ اُس نے تمہارے گناہوں اور آلائشوں کو محض اِس لیے دھو ڈالنا ہے کہ تم ظاہری عبادات کرتے ہو! تم کہتے ہو کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں، یہ بھی تو بتلاؤ کہ کیا تمہارا کوئی کام قرآن و سنت کے مطابق بھی ہے؟

کیا چند ہزار روپے خیرات کر دینے کے بعد تم ٹیکس چوری نہیں کرتے، کیا یہ عین اسلامی فعل ہے، کیا غریب کی عزت نفس مجروح کرنے کے بعد کیمروں کی چکا چوند میں اسے آٹے کا تھیلا دینا پسندیدہ امر ہے، کیا مزدور کا پسینہ خشک ہونے کے بعد اسے ذلیل کرکے تنخواہ دینا سنت پر عمل کرنا ہے۔

کیا تمہیں رسول اللہﷺ کا قول یاد نہیں؟ کس منہ سے تم رسول اللہﷺ کی محبت کا دم بھرتے ہو جب اپنے یتیم بھتیجے کی جائیداد ہڑپ کرکے فون پر نعتوں کی رنگ ٹون لگا لیتے ہو؟ شراب پر پابندی تو تم نے لگا دی لیکن کیا کبھی دولت کے نشے کو بھی حرام سمجھا، کبھی طاقت کے سرور سے نجات پانے کی کوشش کی، کبھی شہرت کے گھمنڈ کو برا جانا؟

اہلِ مغرب سے تمہیں حسد ہے کہ وہ آگے نکل گئے اور تم منہ تکتے رہ گئے، کیا انہوں نے وہی اصول نہیں اپنائے جو تمہیں اپنانا چاہئیں تھے، کیا تمہارا کام فقط اسلام کے نام پر ادارے بنانا ہی تھا۔

اُن اداروں میں علم کی ترویج تمہارا فریضہ نہیں تھا؟ تم چاہتے تھے کہ اسلام کی اِس تجربہ گاہ میں سائنس دان، مفکر اور حکما پیدا ہوتے جیسے تمہارے آبا ؤ اجداد تھے جو پورے عالم اسلام کے لیے رول ماڈل بنتے مگر اِس کام کی تکمیل کے لیے تم نے کیا عملی قدم اٹھایا۔ علمی تحقیق اور جستجو کے لیے ضروری تھا کہ تم ایک آزاد ماحول میں تنقیدی شعور کو پروان چڑھاتے، تمہاری جامعات میں ہر قسم کی بحث کی آزادی ہوتی، نوجوان یہاں سچائی کی تلاش میں آتے، ابن رشد بن کر نکلتے۔

ایسا ماحول دینے کی بجائے الٹا تم نے اِن درسگاہوں کو ذہنی عقوبت خانوں میں بدل دیا جہاں نہ کوئی آزادی سے تحقیق کر سکتا ہے اور نہ کسی سیاسی حریف سے مکالمے کا اہتمام! اللہ نے تو تمہیں بتا دیا تھا کہ ’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘(3:190)، تم نے اِس حکم کی روح کو سمجھنے کی بجائے عید کے چاند پر جھگڑا شروع کردیا۔

تمہارا دعویٰ ہے کہ عشق رسولﷺ میں تم سے کوئی آگے نہیں تو اللہ کے محبوبﷺ نے غیر مسلموں سے حسن سلوک کا حکم دیا تھا، انہیں اِس حد تک آزادی تھی کہ مسجدِ نبویؐ میں عبادت کر سکیں جبکہ تم نے اُن کی بستیوں کو آگ لگائی، اُن کی عبادت گاہوں میں دھماکے کیے اور انہیں جھوٹے الزام میں زندہ جلا کر بھٹی میں ڈالا، تمہی کہو کیا ایسے کام اُس ملک میں کیے جاتے ہیں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو؟

تم اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے ہو، اجتماعات منعقد کرتے ہو، بہت اچھی بات ہے مگر لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے کا بہترین طریقہ تم نے بھلا دیا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر تمہارے اعمال اور حسن اخلاق تبلیغ کی صورت میں معاشرے میں پھیل کر لوگوں کو متاثر کرتے؟ کیا تمہارے نبیﷺ نے اپنے اخلاق سے ہی کفار کو اسلام کی طرف راغب نہیں کیا تھا، پھر تم اُن کی سنتﷺ پر عمل کیوں نہیں کرتے؟

شکوہ کرکے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ تم عہد نامے کی پاسداری سیکھو، جو اسلام کا حکم ہے اور خدا کے نام پر حاصل کیے گئے اِس ملک میں قانون توڑنے کو جرم ہی نہیں گناہ بھی سمجھو ،تمہاری مشکلات کا از خود خاتمہ ہو جائے گا۔

مزید خبریں :