25 اکتوبر ، 2019
سابق وزیر اعظم نوازشریف کا سروسز اسپتال لاہور میں چوتھے روز بھی علاج جاری ہے۔
نواز شریف کو 21 اکتوبر کی رات طبیعت ناساز ہونے پر قومی احتساب بیورو(نیب) لاہور کے دفتر سے سروسز اسپتال لایا گیا تھا جہاں وہ زیر علاج ہیں۔
اسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزار رہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔
نواز شریف کے پلیٹیلٹس گرنے کا معاملہ ابھی تک کنٹرول نہیں ہوسکا اور گزشتہ رات بھی پلیٹیلیٹس ایک بار پھر گر کر 6 ہزار ہوگئے تھے جس کے بعد انھیں پلیٹیلیٹس کی میگا کٹ لگائی گئی۔
اسپتال ذرائع کے مطابق نواز شریف کے پلیٹیلیٹس اس وقت 22 ہزار تک پہنچ گئے ہیں تاہم ان کا بلڈ پریشر اور شوگر زیادہ ہیں۔
اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کو اسٹیرائیڈز دی جارہی ہے جس کے باعث بلڈ پریشر اورشوگر زیادہ ہوجاتے ہیں لیکن ان کی شوگر کنٹرول کرنے کیلئے انسولین بھی دی جارہی ہے۔
نوازشریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی ہے: ڈاکٹر طاہر شمسی
حکومت کی جانب سے قائم کردہ 10 رکنی میڈیکل بورڈ نوازشریف کی صحت کی مسلسل نگرانی کررہا ہے جبکہ میڈیکل بورڈ کے رکن ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا بون میرو جانچنے کیلئے ٹیسٹ کیا گیا، ان کا بون میرو مکمل فعال ہے اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کو کینسر نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ نوازشریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی ہے اور انہیں ’ اکیوٹ آئی ٹی پی‘ لاحق ہے، آئی ٹی پی بیماری عموماً بچوں اورکچھ کیسز میں بڑی عمر کے لوگوں کو ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق نوازشریف کا مرض قابلِ علاج ہے اور اس میں ریکوری 2 میں سے کسی ایک دوائی سے ممکن ہوتی ہے، ایک دوا اسٹیرائڈ اور دوسری آئی وی آئی جی انجیکشن ہے، دوائی ملنے کے 4 سے 5 دن میں پلیٹیلیٹس کی ریکوری شروع ہو جاتی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے کارکن نوازشریف کی عیادت کیلئے مسلسل اسپتال کا رخ کررہے ہیں تاہم اسپتال میں میڈیکل ٹیم اور خاندان کے افراد کے علاوہ کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی جس کے بعد عدالت نے نواز شریف کی ضمانت ایک ایک کروڑ روپے کے دو ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کرلی ہے۔
تاہم جب تک العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں نواز شریف کی سزا معطل نہیں ہوتی ان کی رہائی ممکن نہیں۔
نواز شریف کی رہائی کا دارومدار اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر منحصر ہے جو ممکن ہے کہ اگلی سماعت یعنی 29 اکتوبر کو سنا دیا جائے۔