05 نومبر ، 2019
سانحہ تیزگام میں جاں بحق 59 ناقابل شناخت افراد کی میتوں میں سے 42 کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے کرلی گئی۔
31 اکتوبرکو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس میں آتشزدگی سے 74 افراد جاں بحق ہوئے تھے جب کہ 2 روز قبل نشتراسپتال ملتان میں زیر علاج ایک اور مریض چل بسا جس کے بعد حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد 75 ہوچکی ہے۔
حکام کے مطابق ریل میں آگ مبینہ طور پر مسافروں کے گیس سیلنڈر پھٹنے سے لگی تھی جس نے تیز گام کی 3 بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
بیشتر لاشیں جھلس جانے کی وجہ سے ناقابل شناخت تھیں جس کے باعث انہیں ورثا کے حوالے کرنے کے لیے ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ریلوے حکام کے مطابق حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں سے 59 میتیں ناقابل شناخت تھیں جن میں سے 42 میتوں کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے کرلی گئی ہے۔
پاکستان ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اعجاز بریرو کا کہنا ہے کہ باقی 17 مسافروں کی شناخت کے لیے ڈی این اے کی رپورٹ کا انتظار ہے جب کہ 42 مسافروں کی میتیں کل َان کے ورثا کے حوالے کرنے کا عمل شروع ہوجائے گا۔
دوسری جانب سانحہ تیزگام کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ چیئرمین ریلوے کوپیش کردی گئی ہے۔
ترجمان ریلوے کے مطابق 31 اکتوبر کو پیش آنے والے سانحہ تیزگام کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ملتان عامر محمد داؤد پوتا سمیت کراچی اور سکھر ڈویژن کے 6 افراد کو معطل کردیا گیا ہے۔
ترجمان ریلوے نے بتایا کہ کراچی اور سکھر ڈویژن کے معطل ہونے والے افسران میں کراچی ڈویژن کے ڈویژنل کمرشل آفیسر جنید اسلم، سکھر ڈویژن کےاسسٹنٹ کمرشل آفیسر عابد قمر شیخ اور سکھر ڈویژن کے اسسٹنٹ کمرشل آفیسر ٹو راشد علی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ کراچی ڈویژن کے اسسٹنٹ کمرشل آفیسر تھری احسان الحق، سکھر ریلوے پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ دلاور میمن اورکراچی ریلوے پولیس کے ڈی ایس پی حبیب اللہ خٹک کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔