17 نومبر ، 2019
عموماً ماہِ دسمبر میں برطانیہ میں کرسمس کی شاپنگ عروج پر ہوتی ہے۔ ان دنوں نہ صرف سُپر اسٹورز کے اندر تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، بلکہ باہربھی خون جما دینے والی سردی کے باوجودبرطانوی شہری، بچّوں کو گرم ملبوسات میں لپیٹے بڑے صبرو تحمل سے لمبی قطاروں میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور جب یہ شاپنگ بیگز سے لدے اِن اسٹورزسے نکلتے ہیں، تو ان کے چہروں کی چمک دیدنی ہوتی ہے۔ تاہم، اس مرتبہ جب کرسمس سَر پہ ہو گی، تو برطانوی شہری ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز کے باہر قطاریں بنائے کھڑے ہوں گے۔
برطانیہ میں 12دسمبر کو پولنگ ہو گی اور یہ 4سال سے کچھ زاید عرصے کے دوران چوتھے انتخابات ہوں گے۔ واضح رہے کہ بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کا مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس وقت برطانیہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں، کنزرویٹیو پارٹی اور لیبر پارٹی پورے جوش و جذبے سے عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور برطانوی الیکشن کمیشن نے کمیونٹی ہالز، اسکولز اور اپنے دفاتر کو پولنگ کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم، بورس جانسن اس امید کے ساتھ انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں کہ وہ بھاری اکثریت حاصل کر کے بریگزٹ کو انجام تک پہنچائیں گے، جب کہ ان کے حریف اور لیبر پارٹی کے رہنما، جیریمی کوربائن بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کے ایجنڈے پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ برطانوی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ گزشتہ 75برس کے دوران بریگزٹ سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ بورس جانسن نے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بریگزٹ کی حتمی تاریخ 31اکتوبر مقرّر کی تھی۔
اس دوران انہوں نے یورپی یونین سے ایک معاہدہ بھی کیا، جس میں بالخصوص بیک اسٹاپ کا معاملہ بھی شامل تھا، جس کا تعلق بریگزٹ کے بعد آئر لینڈ اور یورپی یونین کے کسٹم معاملات سے ہے۔تاہم، جب بورس جانسن نے اکتوبر کے آخری عشرے میں اس معاہدے کو برطانوی پارلیمان کے سامنے پیش کیا، تو ان کی توقعات کے برعکس ارکانِ پارلیمنٹ نے اسے مسترد کر دیا۔
معاہدے کی مخالفت کرنے والوں میں لیبر پارٹی کے علاوہ اُن کی اپنی پارٹی کےقوتِ فیصلہ سے محروم منحرف ارکان بھی شامل تھے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انہوں نے اپنے لیڈر، بورس جانسن کی پیٹھ میں چُھرا گھونپا۔ پھر برطانوی وزیرِ اعظم کو مجبوراً قبل از وقت انتخابات کی قرار داد پیش کرنا پڑی، جسے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔
برطانیہ کی کُل آبادی 6.5کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، جن میں سے 4.5کروڑ ووٹرز ہیں۔ 12دسمبر کو ہونے والے انتخابات میں یہ ووٹرز آیندہ 5برس کے لیے پارلیمان کے 650ارکان منتخب کریں گے۔انتخابات میں حصّہ لینے والی دونوں بڑی جماعتوں کا منشور نہ صرف بریگزٹ کے اعتبار سے ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہے، بلکہ معیشت اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی دونوں میں بُعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ ماہرین ان انتخابات کو ’’تاریخ ساز الیکشن‘‘ قرار دے رہے ہیں، کیوں کہ اس کے نتیجے میں برطانیہ کی قومی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں رُونما ہو سکتی ہیں۔
لیبر پارٹی کے رہنما، جیریمی کوربائن نے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف دوبارہ بریگزٹ ریفرنڈم کا وعدہ کیا ہے، بلکہ انہوں نے ماضی میں ہونے والے ریفرنڈم کو کالعدم قرار دینے کا بھی اشارہ دیا ہے۔ اس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ اُس ریفرنڈم میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے حق میں51.7فی صد ووٹ پڑے تھے، جب کہ49.2فی صد ووٹرز نے یورپی یونین میں رہنے کی حمایت کی تھی۔
علاوہ ازیں، لندن، برمنگھم اور مانچسٹر جیسے بڑے شہروں نے بھی علیحدگی کی حمایت نہیں کی تھی اور اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ نے بھی بریگزٹ سے اختلاف کیا تھا۔ البتہ برطانیہ کے چھوٹے شہروں اور قصبات نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالا تھا، کیوں کہ یورپ کے مختلف ممالک سے آنے والے 30لاکھ تارکینِ وطن نے ان کے معیارِ زندگی کو متاثر کیا تھا۔
لیبر پارٹی جہاں روایتی طور پر یورپی تارکینِ وطن کی آمد میں نرمی چاہتی ہے، وہیں سوشلسٹ اکانومی کی جانب بھی رجحان رکھتی ہے، جب کہ بورس جانسن کی کنزرویٹیو یا ٹوری پارٹی آزاد سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنا منشور قرار دیتی ہے، کیوں کہ اس نے اپنے سخت مالیاتی اقدامات سے عالمی اقتصادی بحراان کا خاتمہ کیا تھا۔ گرچہ ابتدا میں برطانوی عوام نے ان اقدامات کا دبائو محسوس کیا، لیکن پھر اُس وقت کے وزیرِ اعظم، ڈیوڈ کیمرون اپنی بہترین گورنینس سے اس کے ثمرات عوام تک منتقل کرنے میں کام یاب رہے اور اگلے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یاب بھی ہوئے۔
سیاسیات کے ماہرین اس اَمر پر متفق ہیں کہ جب کسی مُلک کی پارلیمان پر ایسا جمود طاری ہو جائے کہ جیسا اس وقت برطانوی پارلیمان پر طاری ہے، تو پھر قبل از وقت انتخابات ہی بہترین راستہ ہوتا ہے۔
برطانوی عوام نے ہی 4برس قبل ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا اور وہی اب اپنے آیندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان انتخابات میں شاید کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے، کیوں کہ نہ صرف بریگزٹ بلکہ اقتصادی امور پر بھی برطانوی عوام کی رائے خاصی منقسم ہے۔
برطانوی باشندے عوامی فلاح و بہبود کے حق میں بھی ہیں اور سخت مالیاتی اقدامات کی بھی تائید کرتے ہیں۔ گرچہ بریگزٹ کے معاملے پر سابق برطانوی وزیرِ اعظم، تھریسامے اور اُن کے جانشین، بورس جانسن کو واضح حمایت نہیں مل سکی، لیکن اُن کی حریف جماعت کے لیڈر، جیریمی کوربائن کی پوزیشن بھی زیادہ مستحکم نہیں۔
اگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کرواتے ہیں، تو ایک مرتبہ پھر اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا مطالبہ شدّت اختیار کر سکتا ہے۔
گرچہ ماضی میں ہونے والے ریفرنڈم میں اسکاٹش باشندوں نے قوم پرستوں کو شکست دے کر برطانیہ سے یک جہتی کا اظہار کیا تھا، لیکن اس مرتبہ ان کی رائے تبدیل ہو سکتی ہے۔ پھر بار بار انتخابات اور ریفرنڈمز کی وجہ سے برطانوی معاشرے میں تقسیم بھی گہری ہو سکتی ہے اور قوم پرست غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔
بہر کیف، اس وقت 12دسمبر کے انتخابات ہی جمہوریت پسندوں اور برطانوی عوام کی امیدوں کا مرکز ہیں۔
ہر چند کہ برطانیہ میں گزشتہ 4برس سے شدید سیاسی بحران جاری ہے، لیکن اس کے باوجود تمام سیاسی معاملات پر برطانوی پارلیمان، عوامی نمایندوں اور سیاسی جماعتوں کی گرفت مضبوط ہے اور اسے ان کی سیاسی بالغ النّظری ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، دنیا کے تمام ممالک اس قدر خوش قسمت نہیں۔ مثال کے طور پر لبنان، جو مشرقِ وسطیٰ کا ایک اہم مُلک ہے، گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری بدترین ہنگاموں کے نتیجے میں سیاسی بحران کی زد میں ہے۔ احتجاجی مظاہروں میں شدّت آنے کے بعد سعد الحریری نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دیا، تو اُن کے مخالفین نے جَشن منایا۔ اس وقت لبنان کی معیشت زوال پذیر ہے۔
منہگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بے روزگاری عروج پر ہے اور حُکم رانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ قبل ازیں، سعد الحریری نے 21اکتوبر کو عوام کے سامنے ایک پیکیج پیش کیا تھا، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے بند گلی میں پہنچنے کا اعتراف کیا اور اس کے ساتھ ہی اقتدار سے رخصت ہو گئے۔
یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ کی لبنان کی آبادی 50لاکھ نفوس پرمشتمل ہے۔ 1990ء کی خوں ریز خانہ جنگی کے بعد اس کا آئین ایک سہ فریقی عُمرانی معاہدے پراستوار کیا گیا۔ اس معاہدے کی رُو سے مُلک کا صدر عیسائی، وزیرِ اعظم سُنّی مسلمان اور اسپیکر قومی اسمبلی شیعہ مسلمان ہو گا۔ سعد الحریری کی حکومت ناکام رہی اور عوام کو بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہ کر سکی۔
اطلاعات کے مطابق، حریری حکومت کے خلاف کم و بیش 10لاکھ افراد سڑکوں پر نکلے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ لبنان کا اصل مسئلہ عُمرانی معاہدے پر اُس کی رُوح کے مطابق عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ گرچہ بہ ظاہر اس معاہدے پر عمل ہو رہا ہے، لیکن اس کا انحصار فرقہ واریت پر مبنی طاقت کے توازن پر ہے، جو معمولی معمولی باتوں پر بگڑ جاتا ہے۔ لبنان میں ملازمتیں میرٹ کی بہ جائے فرقوں اور کوٹے کی بنیاد پر دی جاتی ہیں، جس کا نتیجہ بد ترین انتظامیہ کی صُورت سامنے آیا۔
لبنان میں حزبُ اللہ جیسی ملیشیا کی بھی، جو خانہ جنگی کے بعد طاقت وَر ترین فریق بن کر اُبھری اور جسے ایران کی مکمل پُشت پناہی حاصل ہے، خاصی اہمیت ہے۔ حزبُ اللہ نے اسرائیل کی مخالفت کا نعرہ لگا کر عربوں کے دل میں اپنے لیے جگہ بنائی، وہ خود کو ایک انقلابی تحریک کہتی ہے۔ اس کے سربراہ، حَسن نصر اللہ ایک با اثر شخصیت ہیں۔ تاہم، شام میں بشار الاسد کی افواج کے ساتھ مل کر شامی اپوزیشن کو کچلنے پر حزبُ اللہ کو مشرقِ وسطیٰ اور دُنیا میں بڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یاد رہے کہ اس قسم کی ملیشیاز جدوجہد کی تحاریک میں تو بہت مقبول ہوتی ہیں، لیکن انتظامی صلاحیتوں سے عاری ہونے کے سبب مُلک کا نظم و نسق چلانے میں بالکل ناکام رہتی ہیں کہ یہ کام صرف منظّم سیاسی جماعتیں ہی کر سکتی ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال ایران جیسے ایک خوش حال مُلک تک کو انقلاب کے بعد اس مشکل مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اس وقت لبنان میں معاشی ترقّی اور عوامی فلاح و بہبود کا تصوّر نہ ہونے کے برابر ہے ۔ حکومت مختلف دھڑوں کو ’’ایڈجسٹ‘‘ کرنے ہی میں اپنی ساری توانائیاں صَرف کر رہی ہے، جب کہ اقتصادی ماہرین بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔
بد قسمتی سے دیگر اسلامی ممالک کی طرح لبنان میں بھی حکومت، سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اپنی نا اہلی اور بیڈ گورنینس کو بیرونی سازش قرار دے کر بری الذمّہ ہونے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن حکم راں مالی امداد کے لیے مغربی ممالک کے دورے کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
گرچہ لبنان میں جاری حالیہ سیاسی و معاشی بحر ان کا عارضی حل مغربی ممالک کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کے صورت نکل آئے گا، لیکن دیرپا حل اور سیاسی استحکام کے لیے مُلک میں میرٹ کا نفاذ، اچھا طرزِ حُکم رانی اور معاشی ترقّی کو ترجیحات میں شامل کرنا ضروری ہے۔ تاہم، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ لبنان میں احتجاج فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہیں ہوا، بلکہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے معاشی مسائل کے حل کا مطالبہ کرتے رہے، جن میں سّنی و شیعہ مسلمان اور عیسائی بھی شامل تھے۔
مگر چوں کہ عرب اسپرنگ کی طرح لبنانی مظاہرین بھی مرکزی قیادت سے محروم تھے، چناں چہ مجبوراً سعد الحریری کو عبوری وزیرِ اعظم مقرّر کیا گیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ لبنان کے مستقبل کا انحصار سیاسی جماعتوں سے زیادہ عوام پر ہے کہ وہ اپنے مُلک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک زمانے میں بحرِ روم کے خوب صورت ساحلوں پر واقع لبنان، عرب دُنیا کا سب سے ترقّی یافتہ اور تعلیم یافتہ مُلک تصوّر کیا جاتا تھا۔
دوسری جانب عراق میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری احتجاج خُوں ریز مظاہروں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دارالحکومت، بغداد سمیت عراق کے دونوں بڑے شہروں، بصرہ اور کربلا میں مظاہروں کی شدّت میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ دونوں شہروں میں سیکوریٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں معمول بن چکی ہیں، جن میں روزانہ نصف درجن افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ گو کہ عراقی حکومت ان خبروں کی تردید کرتی ہے، لیکن اس وقت بغداد میں معمولاتِ زندگی تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ عراقی دارالحکومت کے دونوں مرکزی پُلوں پر مظاہرین نے دھرنا دے رکھا ہے۔ ان مظاہروں کے دوران کربلا میں کم و بیش 7افراد کی ہلاکت کا واقعہ بھی پیش آیا، لیکن عراقی حکومت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
اسی عرصے میں ایک قابلِ ذکر واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ کربلا میں مظاہرین نے ایران کا جھنڈا اُتار کر عراق کاپرچم لہرا دیا اور ایران کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ واضح رہے کہ گزشتہ 17برس سے ایران، عراق میں قائم ہونے والی حکومتوں کا پشتیبان رہا ہے۔
لبنان کی طرح عراق میں بھی حکومت کی نا اہلی، منہگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ صدّام حسین کے بعد عراق میں قائم ہونے والی حکومتیں تیل کی دولت اور اربوں ڈالرز کی امریکی امداد کے باوجود عوام کو ریلیف فراہم نہ کر سکیں۔ صدّام حسین کے بعد امریکا نے عراق میں ایران کی حمایت یافتہ حکومت مسلّط کی، جب کہ وزارتِ عظمیٰ کا عُہدہ 10برس تک نور المالکی کے پاس رہا۔ اس دوران انہوں نے تمام پرانے سرکاری محکمے ختم کر کے نئے شعبے تخلیق کیے۔
نیز، لاکھوں افراد کو سابق صدر، صدّام حسین کا حامی قرار دے کر نوکری سے فارغ کردیا۔ بعد ازاں، مخصوص فکر کے حامل نئے افراد بھرتی کر کے انہیں تربیت فراہم کی گئی۔ اسی طرح نئی عراقی فوج کی تشکیل و تربیت پر امریکا نے 28ارب ڈالرز خرچ کیے، لیکن یہ داعش جیسی چھوٹی سی تنظیم کا مقابلہ بھی نہ کر سکی اور رقہ جیسے اہم شہر سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس موقعے پر امریکی فوج نے خود آ کر حالات پر قابو پایا۔
صدّام حسین کے بعد عراق کے تینوں وزرائے اعظم نے بد ترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تمام عراقی باشندے، چاہے وہ سُنّی ہوں یا شیعہ، معاشی ابتری اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔
چند برس قبل کُرد باشندوں نے، جو عراق کی ایک اہم اکائی ہیں، مالکی حکومت سے تنگ آکر علیحدگی کی جدوجہد شروع کر دی تھی۔ اگر اس موقعے پر امریکا انہیں مفاہمت پر آمادہ نہ کرتا، تو آج عراق تقسیم ہو چکا ہوتا۔ اس وقت عراقی مظاہرین وزیرِ اعظم، عادل عبدالمہدی اور اُن کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل ہونے والے انتخابات میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے مہدی، مقتدیٰ الصّدر اور ہادی الامیری کے متفقہ امیدوار تھے۔ مقتدیٰ الصّدر عراق کے ایک معتبر مذہبی رہنما ہیں، جب کہ الامیری عراقی ملیشیاز کے اتحاد کے سربراہ ۔
تاہم، اب مقتدیٰ الصّدر عراقی وزیرِ اعظم کی حمایت سے تائب ہو چکے ہیں، جب کہ الامیری بھی ڈانواں ڈول ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت عراقی حکومت کس مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے۔ گرچہ عراق کی ایک نہایت محترم شخصیت، آیت اللہ سیستانی نے فریقین سے محتاط رہنے کی اپیل کی ہے، مگر شاید اُن کی یہ درخواست احتجاج کی شدّت میں اپنا اثر کھو بیٹھے۔ پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مظاہرین مرکزی قیادت سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے خوں ریزواقعات کے باوجوداحتجاج اور جھڑپیں جاری ہیںاور ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ مہدی حکومت کے خاتمے کی صورت میں اقتدار کا ہُما کس کے سَر پر بیٹھے گا۔