03 دسمبر ، 2019
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے برطانوی چیف تفتیشی افسر نے اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بیان ریکارڈ کرادیا۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ اس دوران تینوں گرفتار ملزمان معظم علی، محسن علی سید اور خالد شمیم کو سخت سیکیورٹی میں عدالت پیش کیا گیا۔
برطانوی پولیس کے چیف انویسٹی گیشن افسر اسٹورٹ گرین وے نے بطور گواہ بیان قلمبند کرایا۔
گواہ نے شواہد اور دیگر دستاویزات کا اصل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا جس میں آلہ قتل، چاقو، اینٹ، سی سی ٹی وی فوٹیج، کرائم سین کے نقشے، اسکیچز، ملزمان کے پاسپورٹ، ویزا، فنگر پرنٹس، بینک اکاؤنٹس کی تفصیل، لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز میں بطور طالب علم داخلے، حاضری رجسٹر اور ای میلز کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔
گواہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ ان کا کام قتل کی تحقیقات کی نگرانی اور اس سے متعلق تمام پہلوؤں کو دیکھ کر سچ کا کھوج لگانا تھا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ قتل کیس کی تحقیقات کا ریکارڈ تحویل میں رکھنے والے گواہ کو یہاں پیش کر دیا ہے، دیگر برطانوی گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرائیں گے۔
عدالت نے اصل ریکارڈ دیکھنے کے بعد واپس کر دیا جس پر وکلا صفائی نے اعتراض اٹھایا کہ کریمینل کیس میں مقدمے کا اصل ریکارڈ عدالت کے پاس رہتا ہے۔
عدالت نے اعتراض نوٹ کرتے ہوئے ایف آئی اے سے وڈیو لنک والے گواہوں کی فہرست طلب کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت 5 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ برطانیہ نے اس شرط پر شواہد فراہم کیے ہیں کہ پاکستان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزا ئے موت نہیں دی جائے گی۔
50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے، انہوں نے سوگواران میں اہلیہ اور دو بیٹوں کو چھوڑا تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی موت چاقو کے حملے کے نتیجے میں آنے والے زخموں کی وجہ سے ہوئی تھی۔
ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک اور ملزم کاشف خان کامران کی موت ہو چکی ہے۔