10 دسمبر ، 2019
پنجابی زبان کا ایک معروف محاورہ ہے ....’’گٹے جوڑ کے جھوٹ بولنا‘‘ سچ پوچھیں تو مجھے بھی اس کے پس منظر کا علم نہیں ۔اک ڈھیلا ڈھالا سا اندازہ یہ کہ اس محاورے کا مطلب ہے انتہائی ڈھٹائی سے پورے اعتماد کےساتھ جھوٹ پہ جھوٹ بولتے چلے جانا۔
چھوٹے موٹے جھوٹوں سے تو زندگی میں واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے لیکن میری شدید خواہش تھی کہ عملی زندگی میں کوئی ایک آدھ شخص تو ایسا بھی دکھائی دے جو اس محاورے کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔
قدرت کا شکر گزار ہوں کہ اس نے شہباز شریف کی شکل میں میری یہ دیرینہ خواہش پوری کر دی۔ شہباز شریف جب کاؤ بوائے ہیٹ پہن کر ’’مخروطی‘‘ انگلیاں نچاتے اور اپنے مخصوص ’’تھتھلاتے‘‘ سٹائل میں اپنی مخصوص ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کے ساتھ جھوٹ پہ جھوٹ بولتے ہیں تو میں ہر بار ان کی پرفارمینس پر دنگ رہ جاتا ہوں۔
مجھے ان کے اس ’’فائن آرٹ‘‘ سے کوئی اختلاف نہیں لیکن ایک شکایت ضرور ہے کہ حضور!عوام کو بیوقوف تو ضرور سمجھیں لیکن انہیں 100 فیصد پاگل سمجھنے سے گریز کریں کیونکہ اب تو ریڑھی چھابڑی والے بھی کہنے لگے ہیں کہ ہر الزام کے جواب میں ’’نیب نیازی گٹھ جوڑ‘‘ کی گردان تو کوئی جواب نہیں۔
202جعلی ٹی ٹیوں کے ذریعہ 1.57ارب روپیہ شہباز خاندان کے ذاتی اکاؤنٹس میں جانا ثابت ہو چکا،’’ڈیلی میل‘‘ اور ڈیوڈ روز کے الزامات اپنی جگہ ،وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کو لندن کی عدالتوں میں لےکر جانے کی خالی دھمکیوں پر عملدرآمد بھی علیحدہ لیکن کمال ڈھٹائی ’’یہ ٹی ٹی ٹولہ ‘‘ اصل سوالوں کے جواب دینے کی بجائے مسلسل ادھر ادھر کی ہانک رہا ہے اور لوگ تیزی سے قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ کرپشن اور جھوٹ کے سوا ان کے پلے کچھ بھی نہیں۔
چھوٹے کے چھوٹے کو دیکھو جو کہتا ہے کہ حکومت قومی خزانے سے تو ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکی حالانکہ قوم یا قومی خزانے میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور تم پر تو تباہ حال زلزلہ زدگان کا مال ہڑپ کر جانے کا غلیظ ترین الزام بھی ہے اور یہ الزام لگانے والا صحافی بھی کوئی پاکستانی نہیں، برطانوی گورا ہے اور جس ادارہ نے تم لوگوں کو پینٹ ہاؤس کے بحری لٹیرے قرار دیا وہ بھی پاکستانی نہیں خالصتاً وہاں کا ایک اشاعتی ادارہ ہے تو کیا برطانوی حکومت اور جج بھی بغض سے بھرے بیٹھے ہیں ؟
نہیں، ہرگز نہیں، سچ یہ ہے کہ تم خوفزدہ ہو کہ اگر تم نے برطانوی عدالتوں سے رجوع کرنے کی حماقت اور رنگ بازی کی تو تمہارے سیاسی بدن سے آخری کپڑا بھی اتر جائے گا اور تمہارے جرائم پر برطانیہ کے عدالتی نظام کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہو جائے گی جو نسل در نسل تمہارا تعاقب کرے گی اور پڑپوتوں کے پڑپوتوں تک پورے زوروشور سے منتقل ہوتی رہے گی۔
’’ابے نے خطا کی تھی نسلوں نے سزا پائی‘‘ان سے بھی زیادہ حیرت ان پر ہے جنہیں اب بھی سمجھ نہیں آ رہی یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے، انہیں اب بھی امید ہے کہ ’’ایکشن ری پلے ‘‘ ہو گا، یہ پھر اقتدار میں آئیں گے اور ان کی دیہاڑیاں اور دیہاڑے پھر سے شروع ہو جائیں گے لیکن شاید اب یہ ممکن نہ ہو کہ اگر یہ سیاسی طور پر بچ گئے تو پھر یہاں اور کچھ باقی نہیں بچے گا۔
چیئرمین’’نیب‘‘ نے کہا کہ جو پیسہ عوام پر خرچ ہونا تھا اس سے دنیا بھر میں جائیدادیں خریدی گئیں۔ یہی اصل جواب ہے برخوردار سلو شہباز کے اس فروعی بیان کا کہ ’’حکومت قومی خزانے سے تو ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکی۔
میرا اندازہ 100فیصد درست ہے کہ اس ملک کے ہر کرپٹ نے کرپشن کی اپنی ہی DEFINATION گھڑ رکھی ہے ۔مہذب معاشروں میں تو زندگی ان کیلئے عذاب اور اجیرن بنتی ہی جا رہی ہے جبکہ مجھے اس دن کا انتظار ہے جب یہاں کی گلیاں، بازار اور شاہراہیں بھی ان کیلئے پل صراط بن جائیں گی۔
بات اگر باب در باب یونہی چلتی اور کھلتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اپنے گلی کوچے بھی ان کیلئے بیگانے ہو جائیں گے۔ بندہ زندگی میں جو کچھ کرتا ہے، بنیادی طور پر عزت، وقار اور آخرت کیلئے کرتا ہے جبکہ اگر کوئی دین دنیا دونوں سے گیا، تو پایا کیا ؟کمایا کیا؟چیک بکوں کی چادر تیار کرو اور اس کے کفن میں لپیٹ کر مجھے جائیدادوں کی رجسٹریوں کی قبر میں اتار کر اس پہ یہ کتبہ لگا دو۔
یہاں وہ احمق دفن ہے جس نے کبھی اتنا بھی نہ سوچا کہ بادشاہ شاہجہاں سے لےکر شہنشاہ جہانگیر تک کی قبروں پر اکثر لوگ زیارت اور فاتحہ کیلئے نہیں ....پکنک کیلئے آتے ہیں سب تمہارے کام دیکھتے ہیں رب تمہاری نیتیں دیکھتا ہے۔
VIRGILکہتا ہےʼʼTHE NOBLEST MOTIVE IS THE PUBLIC GOODʼʼاور یہ پبلک کی اجتماعی جیب کاٹنے کو جرم ہی نہیں سمجھتے۔ اک روسی محاورہ ہے کہ تم ٹیڑھے رستوں پر سیدھا چل ہی نہیں سکتے۔ کردار بہت سے افعال واعمال کا مجموعہ ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوجاتا ہے کہ ایک عمل، کوئی ایک فعل انسان کے پورے کردار کو داغدار کردیتا ہے جبکہ یہاں تو 202ٹی ٹیوں کے علاوہ اتنا کچھ ہے کہ ’’ایک خاندان ہزار داستان ‘‘ کے عنوان سے کئی والیومز لکھے جا سکتے ہیں۔