18 دسمبر ، 2019
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے موجودہ ہیڈ کوچ مصباح الحق اور سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر دو الگ الگ انداز والے اور دو منفرد شخصیات کے مالک ہیں۔
مصباح الحق کا تعلق بھی عمران خان کے آبائی شہر میاں والی سے ہے،عمران خان کی طرح وہ بھی نیازی اور اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں۔مکی آرتھر جنوبی افریقا سے تعلق رکھتے لیکن اس وقت ان کے پاس آسٹریلوی شہریت ہے اور پرتھ میں رہتے ہیں۔
سوا تین سال پاکستان ٹیم کے ساتھ رہتے ہوئے انہیں اپنی شریک حیات سے بھی علیحدہ ہونا پڑا۔اہلیہ علیحدگی کے باوجود مکی آرتھر سے ملتی ہیں تو وہ زندہ دل دکھائی دیتے ہیں۔
مصباح الحق پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ بننے کے بعد زیادہ سنجیدہ نظر ہوگئے ہیں ۔مصباح اور مکی آرتھر جمعرات سے کراچی میں اپنی اپنی ٹیموں کو فتح دلانے کے لئے میدان میں اتریں گے کیونکہ مصباح پاکستان اور مکی اس وقت سری لنکا کے ہیڈ کوچ ہیں۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پریس کانفرنس میں مصباح اور مکی کی شخصیت کے دو روپ دکھائی دیئے۔ تین سال سے زائد عرصہ پاکستان کے ہیڈ کوچ رہنے والے مکی آرتھر مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ پاکستانی میڈیا کے سامنے آئے کئی پرانے صحافی دوستوں سے الگ الگ مصافحہ کیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔اسی دوران ایک بے تکلف دوست نے ازراہِ مذاق کہہ دیا کہ مکی لگ رہا ہے کہ آپ غلط رنگ کی ٹریننگ شرٹ پہن کر آگئے ہیں۔
مکی آرتھر جنہیں وسیم اکرم اور مصباح کی سفارش پرکوچنگ سے ہٹا یا گیا تھا انہوں نے پریس کانفرنس میں بر ملا کہہ دیا کہ پاکستان میرے دل کے قریب ہے۔میرا ا س ٹیم کے لڑکوں سے تعلق رہا ہے اور آج بھی کئی لڑکے مجھ سے رابطے میں ہیں۔پاکستان واپس آکر میں خوش ہوں۔میرے مصباح سے بھی اچھے تعلقات ہیں اور پھر اردو میں کہہ دیا کہ سب ٹھیک ہے۔
ادھر مصباح الحق سے سوال کیا گیا کہ پاکستان ٹیم ہار رہی ہے اور مسلسل شکستوں سے آپ دباؤ کا شکار ہیں ؟ مصباح الحق نے کہا کہ پتہ نہیں دباؤ کیا ہوتا ہے دباؤ صرف یہی ہے کہ آپ کی زندگی عارضی ہے، مجھ پر یہی پریشر ہے کہ زندگی عارضی ہے۔میری کوشش ہے کہ اپنی پوری قوت پاکستانی ٹیم کی بہتری اور ترقی پر لگاؤں، ٹیم کو بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
مصباح الحق نے کہا کہ ٹیم میں بہتری ایک دو میچوں کے لئے نہیں ،طویل المیعاد بنیادوں کے لئے ہونی چاہیے ایسا نہ ہو کہ میرے جانے کے بعد نئے آنے والوں کو وہی مسائل ہوں۔
مکی آرتھر نے کہا کہ نیشنل اسٹیڈیم میں میرا 100 فیصد ریکارڈ ہے۔2007میں میری کوچنگ میں جنوبی افریقا نے پاکستان کو کراچی ٹیسٹ میں شکست دی تھی اور مجھے پتہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کو کس طرح زیر کرنا ہے۔
مکی آرتھر نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان میں دس سال بعد ٹیسٹ کرکٹ واپس آئی ہے۔پریس کانفرنس کے اختتام پر مکی آرتھر نے ہنستے ہوئے اردو میں شکریہ کہا اور دوستوں سے ملتے ہوئے چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ پنڈی ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ کہنا مشکل ہے کہ کس ٹیم کو نفسیاتی برتری حاصل رہی۔دونوں ٹیموں کو نفسیاتی برتری کے بجائے نئے میچ میں نئے سرے سے اپنی ٹیم کو آزمانا ہوگا۔
جمعرات سے شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ کے لئے دونوں ٹیموں نے نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستانی کرکٹ ٹیم اپنے فاسٹ بولروں کی مدد سے سری لنکا کو شکست دے کر ٹیسٹ سیریز اور ٹیسٹ میچ جیتنا چاہتی ہے۔
ایسے میں پاکستان کو ٹیسٹ سے دو دن پہلے اس وقت بڑا دھچکا لگا ہے جب ان کے فاسٹ بولرعثمان خان شنواری کو تیز بخار، انفیکشن اور گیسٹرو کی وجہ سے مقامی اسپتال داخل کردیا گیا ہے اور وہ میچ میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق کہتے ہیں کہ جیت کے لئے بیس وکٹوں کی ضرورت ہے اور کیوریٹر کو یہی کہا ہے کہ ہمیں اسپورٹنگ پچ پر میچ کھیلنا ہے اسپورٹنگ کا مطلب یہ ہے کہ ہم فاسٹ بولروں سے میچ جیتنا چاہتے ہیں۔
عثمان شنواری کے ان فٹ ہونے کے بعد پاکستان تین فاسٹ بولروں شاہین شاہ آفریدی،محمد عباس اور نسیم شاہ اور واحد لیگ اسپنر یاسر شاہ کے ساتھ میدان میں اترے گا۔
مصباح نے اشارہ دیا کہ کراچی کے میچ میں فواد عالم کی شرکت کے امکانات نہیں ہیں اس لئے فواد عالم کو ٹیسٹ کھیلنے کے لئے مزید انتظار کرنا ہوگا۔
عثمان شنواری انفیکشن اور بخارمیں مبتلا ہیں انہیں سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی جانب سے مقامی ہوٹل میں قائم اسپتال میں ان کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو ضروری ادویات تجویز کی گئیں اورمکمل آرام کا مشورہ دیا گیا ہے۔
مصباح الحق سے جب پلیئنگ الیون میں فواد عالم کی شمولیت کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ فواد عالم پچھلے 10 سال سے ٹیسٹ ٹیم میں نہیں آیا، فواد عالم کی ضروت پڑی تو کھلائیں گے۔
واضح رہے کہ فواد عالم کو شدید دباؤ کے باعث 10 برس بعد ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کیا گیا لیکن اس کے باوجود انہیں راولپنڈی ٹیسٹ میں موقع نہیں دیا گیا ہے۔