18 دسمبر ، 2019
خدا خدا کر کے فلو کا زور ٹوٹا لیکن پھر بھی ’’ہائی الرٹ‘‘ والی پوزیشن ہے کہ جاتے جاتے واپس نہ پلٹ آئے۔ نڈھال پڑا ٹی وی دیکھتا نہیں، سنتا رہا۔
سانحہ اے پی ایس سے لے کر سقوط ڈھاکا تک زخم بھرتے بھرتے ناخن بڑھ جاتے ہیں اور لہو رسنے لگتا ہے۔ عیادت کیلئے آئے احباب میں سے ایک نے کہا ’’یہ دن ہی بہت منحوس تھا‘‘۔ عرض کیا ’’دن نہیں اعمال منحوس ہوتے ہیں۔‘‘
’’سقوط ڈھاکا‘‘ پر بہت پڑھا اور اس سلسلہ کی آخری کتاب تھی شریف الحق دالیم (بیراتم) کی کتاب جو پہلے انگریزی میں چھپی اور کچھ عرصہ بعد اردو میں جس کا عنوان تھا ’’بنگلہ دیش ان کہی کہانی‘‘ اپنی نااہلیوں اور غیر ذمہ داریوں سے لے کر مکتی باہنیوں اور بھارتی ریشہ دوانیوں اور شیطانیوں تک بہت کچھ نظر سے گزرا لیکن اس سانحہ کا ایک پہلو کسی نے بیان نہیں کیا یا شاید میری نظر سے ہی نہیں گزرا۔
اس خاص پہلو کا اس سانحہ میں کتنال رول تھا؟ اس کا ناپ تول تو ممکن نہیں لیکن اسے نظر انداز کرنے سے بات ادھوری رہے گی سو آج تھوڑی سی بات اس موضوع پر بھی جس کا میں تقریباً 4سال+عینی شاہد رہا۔
یہ تکلیف دہ تجربہ قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کیلئے مجھے تقریباً 50سال پیچھے جانا ہو گا۔1967ء کے آخری مہینوں کی وہ سہ پہر میں کبھی نہیں بھلا سکتا جب میں اور حفیظ خان میرے والد مرحوم کی نیلی برلینا میں نیوکیمپس کے ہاسٹل نمبر1کے پچھلے گیٹ پر پہنچے اور ڈرائیور نے ہمارا سامان کمروں میں منتقل کرنا شروع کیا۔
یہاں تھوڑی وضاحت کہ یہ وہی حفیظ خان ہے جس نے بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کی صدارت کا انتخاب لڑا اور لاہور کے انتہائی مقبول سٹوڈنٹ لیڈر جہانگیر بدر کو شکست دی۔ حفیظ خان کے ساتھ سیکرٹری کے طور پر جاوید ہاشمی منتخب ہوا۔
عجب اتفاق ہے کہ برسوں بعد یہ دونوں آگے پیچھے تحریک انصاف میں بھی اکٹھے رہے لیکن یہ کہانی پھر سہی۔ تب میں اور حفیظ خان ٹین ایجرز تھے جب انڈر گریجویٹس کے طور نیوکیمپس میں داخلہ لیا۔ ہمارا ڈیپارٹمنٹ اکنامکس بھی ایک، ہاسٹل بھی ایک تھا۔
وہ نعرے آج بھی، اس وقت بھی میرے کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔’’سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے‘‘’’سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے‘‘یہ علیحدہ بات کے برسوں بعد اندازہ ہوا کہ نہ سرخ ہے نہ سبز ہے بلکہ زرد ہے-----یرقان زدہ زرد۔
حفیظ خان کے سپورٹرز کا فیورٹ نعرہ تھا تیری آن میری آن حفیظ خان حفیظ خان دوسری طرف بنگالی طالب علموں کی بھاری اکثریت جہانگیر بدر کو سپورٹ کرتے ہوئے کہہ رہی تھیامارا صدر تمہارا صدرجہانگیر بدر جہانگیر بدربنگالی تب بھی ’’انقلابی‘‘ تھے۔
اب واپس ہاسٹل نمبر ون چلتے ہیں جہاں پورے مغربی مشرقی پاکستان سے بھانت بھانت کی بولیاں اور شکلیں جمع ہو چکی تھیں۔ اس ہاسٹل میں اکثریت انڈر گریجویٹس کی تھی جن میں خاصی تعداد مشرقی پاکستانیوں یعنی بنگالیوں کی تھی۔
شروع میں اکثر گم سم سے تھے جو چند ہفتوں میں آہستہ آہستہ کُھلتے گئے، کِھلتے گئے اور گھلتے ملتے گئے۔ پہلے مرحلہ میں مغربی پاکستانی نسبتاً تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ گئے کیونکہ ان کا تعلق بھی مختلف شہروں سے تھا۔ اس فطری، معصومانہ، جغرافیائی اور ثقافتی تقسیم کے پیچھے کسی بھی قسم کے تعصب کا نام و نشان تک نہ تھا کہ عمریں ہی ایسی تھیں جن میں ایسی کسی غلاظت کا امکان ہی نہیں ہوتا۔
بس ایک عجیب سی جھجک تھی، ناقابل بیان سی اجنبیت تھی۔ دونوں اک دوجے سے خاصے مختلف تھے۔ شکلیں، رنگتیں، قد کاٹھ، مینر ازم، بولی، لہجہ غرضیکہ تقریباً سب ہی کچھ مختلف تھا۔ مشرقی پاکستانی آپس میں زیادہ کمفرٹیبل محسوس کرتے اور یہی حال ہم مغربی پاکستانیوں کا تھا۔ یہ پہلا مرحلہ تھا ’’تعلق‘‘ کا جو چند ماہ کے اندر اندر مکمل ہو گیا۔ برف پگھلنے لگی، لڑکے سیٹل ہو کر ریلیکس کرنے لگے تو ’’تعلقات‘‘ کے فیز ٹو کا آغاز ہوا اور مغربی مشرقی بھی آپس میں ملنے لگے، ہیلو ہائے تھوڑی گرمجوشی اور نیم دوستی میں تبدیل ہونے لگی۔
جن چند بنگالیوں کے ساتھ میری ’’دوستی‘‘ شروع ہوئی ان میں اے بی ایم فاروق، دیوان (پورا نام یاد نہیں)، حسین، بابل اور عبدالعلیٰ سرفہرست تھے۔ ہم عبدالعلیٰ کو گیری کوپر کہا کرتے، بابل بہت چھوٹو سا سویٹ لڑکا تھا جبکہ حسین وہ واحد لڑکا تھا جو کسی طرح، کسی طرف سے بنگالی نہیں دکھتا تھا۔ لمبا قد،گورا رنگ اور نقش و نگار بھی سو فیصد غیربنگالی۔
یہ تھا وہ دوسرا مرحلہ جب ہم نے ایک دوسرے کے کمروں میں آنا جانا شرو ع کر دیا۔اس دوسرے مرحلے میں قربت بڑھی تو ایک دوسرے کے کیریکٹر سے واقفیت میں بھی اضافہ ہوا تو بتدریج اپنی اپنی جگہ ہم سب اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہم بالکل مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ ثقافتی ہی نہیں دیگر حوالوں سے بھی مختلف مثلاً ..... ہم مغربی پاکستانیوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو مہینے کے آخری دنوں میں پھانک نہ ہو جاتا ہو، ہم طبعاً خرچیلے تھے، ہر ایک کے سگریٹوں کا پیکٹ ’’کامن پراپرٹی‘‘ تھیایک دوسرے پر خرچ کرنے میں سبقت کی کوشش، اگر ’’ہم سائز‘‘ ہیں تو ایک دوسرے کے کپڑے بھی جائز۔
اللہ بخشے مسعود داڑھو قد میں مجھ سے کہیں لمبا تھا سو میرے کپڑے تو استعمال کر نہیں سکتا تھا لیکن میرے اکثر مفلر، سکارف اسی کے استعمال میں رہتے جبکہ مشرقی پاکستانیوں کے رویے سو فیصد مختلف، خرچ کرنے میں انتہائی محتاط۔
سگریٹ تک کے معاملہ میں ’’معاملہ فہم‘‘ہر بنگالی لڑکے کے کمرے میں اک خاص قسم کی ’’بو‘‘ ہوتی۔ میں خوشبو یا بدبو نہیں صرف ’’بو‘‘ کی بات کر رہا ہوں۔ رات کو نائٹ سوٹ یا شلوار قمیص نہیں ’’گول دھوتی‘‘ پہنتے۔
ان کے مینیو بھی مختلف اور کھانے کا طریقہ بھی اپنا ہی تھا خاص طور پر جب چاول اور مچھلی کھاتے۔ زیادہ تفصیلات میں کیا جانا مختصراً یہ کہ ہم کلچرلی مختلف تھے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں فاصلہ بھی تو دو ہزار دو سو چار کلو میٹر کا تھا۔
ہماری سردمہری بھی ان کی ’’گرمجوشی‘‘ سے زیادہ گرم ہوتی۔نتیجہ یہ کہ تیسرے مرحلہ میں شارٹ فریز، تعلقات منجمد ہو گئے، ٹھٹھر سے گئے اور کسی ایک مغربی پاکستانی لڑکے کی کسی بنگالی سے ایسی دوستی نہ ہو سکی جیسی ہم لوگوں کی سدا بہار دوستیاں جو 52سالوں پر محیط ہیں۔
صلو درانی سے لے کر جاوید گتے، یوسف ہونڈا، افضل شیخ، عنایت قصوری اور جاوید ککڑ تک رب سب کو سلامت رکھے اور بخدا .... جو بچھڑ گئے انہیں یاد کئے بغیر تو میں کبھی سو بھی نہ سکا۔