04 جنوری ، 2020
باٹم لائن کیا ہے؟کوئی دولت میں بل گیٹس، تکبر اور ظلم میں نریندر مودی، رعونت میں نمرود، طاقت میں ہرکولیس، سیمسن یا رستم، حسن و جمال میں یوسفؑ، صبر میں ایوبؑ، درازیٔ عمر میں نوحؑ، مصوری میں مانی یا مائیکل اینجلو، جنون میں مجنوں، عدل میں نوشیرواں، دبدبہ میں جمشید، ملک گیری میں سکندر یا تیمور، بغاوت میں سپارٹکس، سخاوت میں حاتم، طوالت قامت میں عوج بن عنق، موسیقی میں تان سین، شاعری میں انوری فردوسی و سعدی، مردانگی میں محمد فاتح، خاموشی میں زکریاؑ، گریہ میں یعقوبؑ، جہالت میں ابوجہل، حکومت میں سلمانؑ، خون ریزی میں چنگیز، رفاہ عام میں شیر شاہ سوری، محسن کشی میں روہیلہ یا ضیا الحق، کسب حلال میں سلطان ناصر الدین، سیاحت میں ابن بطوطہ، کثیر الازدواجی میں واجد علی شاہ اور ارادہ میں علاء الدین خلجی ہی کیوں نہ ہو۔
زندگی کی باٹم لائن کیا ہے؟ اس کھیل کا ڈراپ سین ؟موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سن زندگی بھر کا خلاصہ اسی آواز میں ہےانسان زندگی بھر قبر کی تلاش میں قبر کی طرف بھاگتا ہے اور نہیں جانتا...... جاننے کے باوجود نہیں جانتا کہ اس ساری تگ و دو، جدوجہد، منصوبہ بندیوں، کامیابیوں، ناکامیوں، شہرتوں، گمنامیوں کا حاصل کیا ہے۔
ایک صفحہ پر دو بوکسز میں دو تصویریں تھیں دائیں شاعری کا شہزادہ منیر نیازی بائیں شاعری کی شہزادی پروین شاکرمنیر کی تصویر کے نیچے لکھا تھا ....... تاریخ وفات 26دسمبر 2006ء۔
پروین کی تصویر کے نیچے لکھا تھا .... تاریخ وفات 26دسمبر 1994ء، یہاں اور کون رہ گیا جو یہ رہ جاتےزندگی موت کے گھاٹ اتارے بنا جان نہیں چھوڑتی، قبر کا چوکھٹا خالی ہے اسے یاد رکھوجانے کب کون سی تصویر سجا دی جائےلیکن تصویر کیا؟ ریت اور پانی پر بنائی گئی تصویریں کیا، تحریریں کیا۔
خواب میں خواب اور سراب در سراب کے علاوہ زندگی کیا، نہ رنج رفتگاں کر رفتہ رفتہ پہنچ جائے گا تو بھی کارواں تک ایک دھانسو قسم کے جج کا جنازہ دیکھ کر کسی نے فی البدیہہ کہا: آج دنیا کی کچہری سے سدھارے منصف ملک الموت کی ڈگری ہوئی ہارے منصف سیانے کہتے ہیں موت سے غافل ہو جانا یونہی سمجھو جیسے دشمن کے نرغے، محاصرے میں کوئی نہتا گہری نیند سو جائے۔
شیخ سعدی نے کہادنیا پلے ست راہگذر دار عاقبت صاحب تمیز خانہ نگیرند برپُلے یعنی عاقبت کی راہ میں یہ دنیا ایک پل کی مانند ہے اور کوئی عقل مند پل پر اپنا گھر نہیں بناتا۔
عمر کی رفتار ہو محسوس یہ دشوار ہے یہ زمیں چلتی ہے تیزی سے مگر ہلتی نہیں حضرت عثمانؓ جب کسی قبر پر جاتے تو اتنا روتے کہ چہرہ آنسوئوں سے تر ہو جاتا، کسی نے کہا آپ جنت و دوزخ کے بیان پر اتنا نہیں روتے جتنا قبروں پر روتے ہیں۔
فرمایا میں نے حضورؐ سے سنا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے، اگر مردہ اس سے بچ گیا تو دوسری منزلیں بھی اس پر آسان ہو جاتی ہیں لیکن اگر اسی منزل سے نجات نہ پائی تو دوسری منزلیں بھی کڑی اور مشکل ہو جاتی ہیں۔
آقاؐ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو بہت زور زور سے قہقہے لگا کر ہنس رہے تھے۔ فرمایا کہ ’’ان لوگوں میں لذتوں کو تلخ کر دینے والی کا ذکر بھی شامل کردو‘‘ پوچھا ’’حضورؐ ! وہ کیا ہے؟‘‘ فرمایا ’’وہ موت ہے‘‘۔
آپ کے سامنے لوگوں نے کسی مرحوم کی بہت تعریف کی، فرمایا ’’وہ شخص موت کی یاد میں کیسا تھا؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’ہم نے اسے موت کو یاد کرتے تو کبھی نہیں دیکھا‘‘ فرمایا ’’ تو وہ اس درجہ کا نہیں جس پر تم اس کو سمجھتے ہو‘‘۔
نوشیرواں کو کسی نے یہ کہتے ہوئے مبارکباد دی کہ خدا نے تمہارے فلاں دشمن کو دنیا سے اٹھا لیا ہے، نوشیرواں نے کہا ..... کیا تم نے یہ بھی سنا ہے کہ خدا نے مجھے چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے، دشمن مرے تے خوشی نہ کریئےسجناں وی مر جانااور جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی ہےزندگی خود بخود ہی کٹتی ہےفرمایا ’’میں نے دونوں آنکھیں کبھی اس طرح نہیں کھولیں جس میں یہ خیال نہ کیا ہو کہ پلکیں بند کرنے سے پہلے میری روح قبض کرلی جائے گی اور کوئی نگاہ میں نے اوپر کو ایسی نہیں اٹھائی جس میں یہ خیال نہ کیا ہو کہ نیچے نگاہ کرنے تک میں جیتا رہوں گا اور کوئی لقمہ ایسا نہیں کھایا جس میں یہ خیال نہ کیا ہو کہ موت سے پہلے اسے نگل سکوں گا‘‘۔
کہتے ہیں کہ ارسطالیس سل کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوا، فالج افلاطون کی موت کا بہانہ بنا، لقمان سرسام اور جالینوس اسہال کے سبب دنیا سے رخصت ہوئے حالانکہ ان طبیبوں کو انہی امراض کے علاج میں کمال اور یدطولیٰ حاصل تھا۔
اسی طرح دھنتر وید کو سانپ پکڑنے میں مہارت حاصل تھی لیکن وہ سانپ کے ڈسنے سے مرا ، جیسے قطب الدین ایبک پولو (چوگان) کامایۂ ناز کھلاڑی تھالیکن گھوڑے سے گر کر مرا اور ڈاکٹربرنارڈ جس کو ہارٹ سرجری کا باپ کہا جاتا ہے، خود ہارٹ اٹیک سے فوت ہوا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے موت سے پہلے دن رات عبادت کو شعار کرلیا، لوگوں نے عرض کیا ’’اپنے نفس پر کچھ نرمی کریں‘‘ تو آپ نے کہا کہ ’’گھڑ دوڑ میں اصیل گھوڑا جیتنے کے نشان کے قریب اپنا پورا زور لگا دیتا ہے‘‘۔
نزع میں پیش نظر ہیں عمر بھر کے واقعات ساری دنیا کا مرقع آخری منظر میں ہے، ترے انداز پہ عمر رواں کچھ شک گزرتا ہےلیے جاتی ہے تو مجھ کو کدھر آہستہ آہستہ آخری ہچکی اور آخری منظر کے سوا زندگی کیا ہے؟آج کا کالم منیر نیازی اور پروین شاکر کے نام۔