Time 06 جنوری ، 2020
دنیا

ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے پر بضد

ٹرمپ نے ایران کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اہلکاروں یا اثاثوں پر حملہ کیا تو اس کی 52 تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے،فوٹو:فائل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی جانب سے  جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے ردعمل میں کسی کارروائی کے بدلے میں ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کے اپنے  مؤقف پر قائم ہیں۔

 خیال رہے کہ 3 جنوری کو بغداد میں امریکی حملے میں ایرانی قدس فورس کے کمانڈر  میجر جنرل قاسم سلیمانی جاں  بحق ہوگئے تھے جس کے بعد ایران کی جانب سے سخت ردعمل دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے بدلہ لینا کا اعلان کیا گیا۔

ایران کی پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل غلام علی ابو حمزہ نے اپنے بیان میں کہا  تھا کہ جہاں بھی موقع ملا امریکیوں کو جنرل سلیمانی کے قتل کا جواب دیں گے۔

جنرل غلام علی ابو حمزہ کا کہنا تھا کہ آبنائے ہرمز میں امریکی جنگی جہاز اور اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سمیت 35 تنصیبات ایران کے نشانے پر ہیں۔ 

ایرانی کمانڈر کی دھمکی پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر بڑے، تیز ترین اور تباہ کن حملوں کی دھمکی دے دی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے امریکی اہلکاروں یا اثاثوں پر حملہ کیا تو اس کی 52 تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اہداف کو انتہائی پُھرتی اور شدت سے نشانہ بنائیں گے، ان میں سے بعض مقامات ایرانیوں اور ایرانی ثقافت کے لیے نہایت اہم اور حساس ترین ہیں۔

امریکی صدر کی جانب سے اس بیان کے بعد دنیا بھر میں انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ثقافتی امور سے متعلق تنظیموں کی جانب سے سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانا یا تباہ کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنائے جانے کے اپنے مؤقف پر بضد ہیں اور جہاز میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران انہوں نے  ایک بار پھر اپنے عزائم کا اظہار کیا ہے۔

 'ہمیں ان کے ثقافتی مقامات کو چھونے کی بھی اجازت نہیں؟'

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ 'وہ ہمارے لوگوں کو قتل کرسکتے ہیں، انہیں ہمارے لوگوں پر تشدد اور زخمی  کرنے کی اجازت ہے، وہ سڑکوں پر ہمارے لوگوں کو بموں سے اڑاسکتے ہیں  لیکن ہمیں ان کے ثقافتی مقامات کو چھونے کی بھی اجازت نہیں؟ اس طرح کام نہیں چل سکتا'۔

دوسری جانب نیٹو میں سابق امریکی سفیر اور  نائب وزیر خارجہ  نکولس برنس  کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ بیان غیر اخلاقی اور غیر امریکی ہے۔

آسکر انعام یافتہ امریکی اداکار مورگن فری مین نے ٹرمپ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ میرے صدر نہیں ہیں۔

ایک اور امریکی اداکار جان ہرٹزلر کا کہنا ہے کہ امریکی عوام ٹرمپ کے اس بیان کی حمایت نہیں کرتے۔

اس کے علاوہ امریکی شہریوں کی بڑی تعداد کے علاوہ دنیا بھر سے ٹرمپ کے بیان پر تنقید کی جارہی ہے۔ 

امریکی صدر کے جنگ کے اختیارات کم کرنے پر قرار داد پیش کی جائے گی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگجوانہ عزائم کو قابو میں لانے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے کانگریس میں بل لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈیموکریٹ رہنما اور امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کا کہنا ہے کہ ایوان میں اسی ہفتے امریکی صدر کے جنگ کے اختیارات پر قرار داد پیش کی جائے گی تاکہ موجودہ صورتحال میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فوجی کارروائی کے اختیارات کو کم کیا جاسکے۔

خیال رہے کہ ایوان نمائندگان یا ایوان زیریں میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے اور یہ قرارداد یہاں منظور ہوسکتی ہے تاہم امریکی سینیٹ جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن کی اکثریت ہے وہاں سے اس بل کا پاس ہونا مشکل ہے۔

'ہم 52 کے جواب میں 300 مقامات کو نشانہ بنائیں گے'

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے فوجی مشیر حسین دیہغان نے ٹرمپ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا ردعمل عسکری ہوگا اور اس کا نشانہ بھی عسکری تنصیبات ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایرانی ثقافتی مقامات کو نشانہ بنایا گیا تو پھر امریکا  کےعسکری اور سیاسی اداروں  سمیت اس کا کوئی بھی جہاز محفوظ نہیں رہے گا اور ہم 52 کے جواب میں 300 مقامات کو نشانہ بنائیں گے۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے جنگی جرم قرار دیا ہے۔

مزید خبریں :