07 جنوری ، 2020
دنیا کی موجود مجموعی سیاسی صورتحال نے ایک بڑا سوال تو پہلے ہی پیدا کیا ہوا ہے کہ عالمی سیاست کے بڑے کھلاڑیوں کو واقعی عالمی امن مطلوب بھی ہے یا فقط اس کا چیمپئن بنے رہنا اور اپنے ہی ’’قومی مفادات‘‘ کی آڑ میں اسے (عالمی امن) کسی صورت قائم نہ ہونے دینا ہی مقصد ہے؟
یا یہ اندازِ عالمی سیاست ہی ان کی خارجی سیاست کا لازمہ بن گیا ہے؟ گزشتہ چند روز میں ایرانی عسکری قائد کے بذریعہ امریکی ڈرون حملہ قتل اور بھارت کے نئے چیف آف آرمی اسٹاف کی پاکستان کو سلامتی کے حوالے سے دھمکیوں اور اس کے عالمی اور پاکستانی ردعمل سے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاپہ ہولناک جنگ کے بادل چھا گئے ہیں۔
اس صورت نے ہر دو خطوں میں خصوصاً اور پوری دنیا میں امن عالم کو سنگین خطرے کا جو چیلنج پیدا کیا ہے، اسے بلاتاخیر ایڈریس کرکے عالمی برادری اس سے نمٹنے کی طرف فوراً نہیں آتی تو بہت ہولناک نتائج کا حامل کوئی بھی واقعہ، ان دونوں خطوں (مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا) میں کسی بھی وقت کہیں بھی ہو سکتا ہے۔
اللّٰہ خیر! متذکرہ اٹھائے گئے سوالات کے سچے جوابات اور ان کے مطابق مطلوب عملی اقدامات کی شدت تو پہلے ہی بڑھ رہی تھی لیکن ایرانی جنرل کے قتل نے اس میں کئی سو گنا اضافہ کر دیا ہے۔
اگر چین، روس، فرانس اور برطانیہ نے سیکورٹی کونسل کے مستقل رکن کی اپنی عالمی ذمہ دارانہ حیثیت کا احساس کرتے ہوئے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس نہ بلایا یا بلانے پر پانچوں مستقل ارکان نے عالمی فورم میں روایتی عالمی سیاسی دھڑے بندی میں مبتلا ہوکر خطے میں خوفناک جنگ کے خطرے کو نہ ٹالا تو شاید کسی اور ڈپلومیٹک چینل سے یہ مقصد عظیم حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔
گویا منڈلاتی جنگ کے واضح امکانات کو ختم کرنے کا چیلنج یہ بھی ہے کہ سیکیورٹی کونسل اپنے اصل کردار کی ادائیگی کے لئے بہت تیزی سے مطلوب درجے پر اپنے موجود رویےّ (آزادی سے محرومی پر خاموشی) کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی تو یقین کر لیا جائے کہ تیسری جنگ عظیم تیار ہے۔
سیکیورٹی کونسل میں امریکہ کو تنہا کرکے اور ٹرمپ انتظامیہ کے انتہائی جارحانہ اقدام کے خلاف چاروں مستقل اراکین کے کسی مشترکہ حل اور اسے تسلیم کرانے کے لئے امریکہ پر عالمی دبائو سے ہی وہ صورت پیدا کی جا سکتی ہے جو جنگ کے خطرے کو ٹال سکتی ہے، یوں یہ بوجھ فرانس اور برطانیہ کو اٹھانا ہوگا۔
دوسری جانب امریکی ایوان ہائے نمائندگان سے سول سوسائٹی کے جنگ مخالف اور امریکی عوام کے سچے خیر خواہوں کی طرف سے بھی بڑی حقیقت پسندی سے اپنے ہی صدر کے اقدام کو قتل کہا جا رہا ہے اور دہائی دی جا رہی کہ جنگ کو روکنے کا کوئی انتظام کیا جائے۔
اس پر روس اور چین کے ردعمل اور سب سے بڑھ کر انتقام کے ایرانی سرکاری اعلان کو خاطر میں نہ لانا بہت بڑی تباہی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔
مقبوضہ عراق کی پارلیمنٹ اور حکومتی ردعمل نے عراق پر قابض امریکیوں کی زندگی کو جنگ نہ ہوتے ہوئے بھی مسلسل خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ نہ صرف امریکہ میں، دیگر کئی خطوں اور ممالک میں بھی عام امریکی شہری ایسے ہی خطرات سے دوچار ہو گئے ہیں۔
اس صورتحال کا مداوا اب خود امریکی اپوزیشن، میڈیا اور سول سوسائٹی نے مل کر کرنا ہے۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عراق پر امریکی قبضے سے قبل صدام دور پر ملک میں وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈیز) کے پوشیدہ ذخائر کا الزام لگا کر جو حملہ کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سویڈش انسپکٹر کی جانب سے ان کی عدم موجودگی کے سرٹیفکیٹ، اقوام متحدہ کی تائید اور امریکی اور یورپی درجن سے زائد شہروں میں عراق پر حملہ رکوانے کے لئے حقیقی معنوں میں میلینز کی احتجاجی ریلیوں کے باوجود بش انتظامیہ نے خفیہ اداروں کی غلط ثابت ہونے والی رپورٹس کو وزن دیتے ہوئے عراق پر حملہ کرکے اسے اپنا مقبوضہ بناکر ایک پُرامن ملک میں جو وسیع تر تباہی کا شیطانی کھیل کھیلا۔
اسے صدر بش نے فقط یہ کہہ کر اپنی خفت اور جرم کی حد تک غلطی کو ختم کرنے کی کوشش کی کہ ’’عراق پر حملہ جن اطلاعات کی بنیاد پر کیا وہ غلط تھیں‘‘ لیکن لاکھوں ہلاکتوں کے بعد بھی آج یہ قبضہ جاری ہے۔ اب بھی جو ایرانی جنگی تیاریوں کے غیر ثابت شدہ الزام پر ایرانی اور عراقی فوجی سربراہوں کا قتل کیا گیا ہے۔
کیا وہ بش انتظامیہ کی بڑی غلطی سے بھی زیادہ بڑی اور مہلک غلطی نہیں؟ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وزیراعظم عمران خان نے انتخابات جیتنے کے فوراً بعد یہ واضح کر دیا تھا کہ ’’اب پاکستان کسی بھی جنگ میں اتحادی بننے کی بجائے صرف امن اقدامات اور عمل کا ہی پارٹنر بنے گا‘‘۔
بھارتی جنگی جنون ہی نہیں بلکہ فضائی جنگ کے مقابل کامیاب ترین دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے، گرفتار پائلٹ کی فوراً واپسی، کرتارپور کوریڈور، امریکہ، طالبان امن مذاکرات کو کامیاب کرانے میں بھرپور تعاون، یمن جنگ پر ایران، سعودی کے حوالے سے دونوں دوست ممالک میں مصالحت کی سفارتی کوشش، ایک ہی سال کے وہ امن اقدامات ہیں جن سے وزیراعظم کا متذکرہ عزم عمل میں ڈھلا۔
گزشتہ روز بھی پاک افواج کے ترجمان نے واشگاف الفاظ میں یہ واضح کر دیا کہ ’’کسی بھی جنگ میں کسی بھی فریق کو پاک سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔
ایران، امریکہ کشیدگی کے تناظر میں یہ وضاحت بھی حکومتی پالیسی کی ہی عکاس ہے۔ پاکستان کو آنے و الے دنوں میں اپنی اسی پوزیشن کو ہی جاری رکھنا ہے اور دوست اسلامی ممالک کے تعاون و اشتراک سے اسلامی دنیا کے حساس ترین حصے کو مزید جنگ و جدل سے بچانے اور یہاں امن کے قیام۔ ہمسایوں میں غلط فہمیاں دور کرنے اور غیر ملکی عسکری موجودگی کو کم اور ختم کرکے علاقے میں استحکام لانے اور یہاں سلامتی و امن کو یقینی بنانے کیلئے مشترکہ کوششوں میں ہی اپنا کردار ادا کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہے، یہ ہی بہترین سفارتی راہ ہو گی۔