07 جنوری ، 2020
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان نے آرمی ایکٹ کی حمایت کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
قومی اسمبلی میں آرمی ترمیمی ایکٹ پیش ہونے سے قبل ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس میں ارکان نے کئی سوالات اٹھادیے۔
ارکان نے سوال اٹھائے کہ کہاں گیا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ؟ سویلین بالا دستی کے نعرے کا کیا ہوا؟ غیر مشروط حمایت کی کیا جلدی تھی؟ عوام کا سامنا کیسے کرنا ہے؟ دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟
خواجہ آصف نے پارلیمانی پارٹی کے ارکان کو آگاہ کیا کہ مسلم لیگ ن آرمی ترمیمی ایکٹ کی حمایت کرے گی کیونکہ یہ فیصلہ پارٹی قیادت کا ہے اور ارکان اس پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔
اس دوران رکن اسمبلی میاں جاوید لطیف نے پارٹی پالیسی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ نواز شریف تو اپنے بیانیے پرکھڑے رہے لیکن جو رہنما یہاں تھے، انہیں چاہیے تھا کہ درست طریقے سے فیصلے کی وضاحت کرتے، غیر مشروط حمایت کا کہا گیا ہے اللہ کرے یہ حمایت مشروط نہ ہو۔
سینیٹر چوہدری تنویر کا کہنا تھا کہ ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالادستی کا بیانیہ کہاں گیا؟ ارکان کے تحفظات پر خواجہ آصف نے جواب دیا کہ شہبازشریف خود آکر جواب دیں گے، دسمبر میں میاں صاحب سے مشاورت ہوئی تو انہوں نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔
اس دوران خواجہ آصف نے سینیٹر پرویز رشید کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ پرویز صاحب وہاں موجود تھے، ان سے تصدیق کر لیں تو اس پرپرویز رشید نے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن تب سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا تھا۔
یاد رہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اعتراض کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بلز کی حمایت میں ووٹ دیا اور یہ بلز قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بدھ کو سینیٹ میں پیش ہوں گے۔
یکم جنوری کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔
وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کا طریقہ کار وضع کیاگیا ہے۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں ایک نئے چیپٹرکا اضافہ کیا گیا ہے، اس نئے چیپٹر کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کا نام دیا گیا ہے۔
اس بل میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت تین سال مقررکی گئی ہے جب کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے پر انہیں تین سال کی توسیع دی جا سکے گی۔
ترمیمی بل کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی مفاد اور ہنگامی صورتحال کا تعین کیا جائے گا، آرمی چیف کی نئی تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔
ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا۔
علاوہ ازیں ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائیر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر کریں گے۔
ترمیمی بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا، ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جاسکے گی۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 کی رات 12 بجے مکمل ہورہی تھی اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں3 سال کی نئی مدت کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے گذشتہ سال 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔