09 جنوری ، 2020
امریکی حکام کو یقین ہے کہ ایران میں تباہ ہونے والے یوکرین کے مسافر طیارے کو ایران نے غلطی سے نشانہ بنایا ہے۔
خیال رہے کہ یوکرین انٹرنیشنل ائیرلائن کا بوئنگ 800-737 طیارہ گزشتہ روز تہران کے امام خمینی ائیرپورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں 176 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مسافر طیارے میں عملے کے 9 افراد بھی سوار تھے جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق مرنے والوں میں ایران کے 82، کینیڈا کے 63، یوکرین کے 11، سوئیڈن کے 10، 4 افغانی اور جرمنی و برطانیہ کے تین، تین شہری موجود تھے۔
یاد رہے کہ یہ حادثہ ایران کی جانب سے عراق میں امریکا کے 2 فوجی اڈوں پر میزائل حملوں کے کچھ گھنٹے بعد ہی پیش آیا تھا جس کی وجہ سے یہ افواہیں بھی سامنے آئیں کہ طیارہ ان ہی میزائلوں کی زد میں آیا ہے۔
واقعے کے فوری بعد یوکرین کا کہنا تھا کہ وہ تحقیقات کررہا ہے کہ آیا یہ واقعہ میزائل لگنے کی وجہ سے پیش آیاہے یا نہیں تاہم ایران کی جانب سے میزائل لگنے کی قطعاً تردید کی گئی ہے۔
امریکی آن لائن جریدے نیوز ویک کا کہنا ہے کہ امریکی محکہ دفاع پینٹاگون اور سینیئر انٹیلی جنس حکام سمیت عراقی انٹیلی جنس حکام کو یقین ہے کہ یوکرینی مسافر طیارہ روسی ساختہ میزائل ’تور‘ کے لگنے سے تباہ ہوا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا یہ تجزیہ، ریڈار اور سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی رپورٹس کی بنیاد پر ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں طیارے کی تباہی کے حوالے سے شکوک وشبہات ہیں اور انہیں شک ہے کہ طیارہ کسی خرابی کے باعث تباہ نہیں ہوا بلکہ اس معاملے میں کسی سے غلطی ہوئی ہے۔
دوسری جانب ایران نے یوکرین کے مسافر طیارے کو اپنےمیزائل لگنے کی تردید کی ہے۔
ایرانی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ علی عابدزادہ کا کہنا ہے اگر طیارے کو راکٹ یا میزائل لگتا تو وہ فوری طر پر تباہ ہوجاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاز اڑنے کے بعد فضا میں 5 منٹ تک رہا اور خرابی پر پائلٹ نے ائیر پورٹ پر واپسی کی بھی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
علی عابدزادہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک طیارہ جسے میزائل یا راکٹ نے نشانہ بنایا ہو وہ کیسے ائیر پورٹ واپس آنے کی کوشش کرسکتا ہے؟
ایران نے یوکرین طیارہ حادثےکی تحقیقات کیلئے امریکا کو دعوت دےدی ہے۔
امریکی اخبار کے مطابق ایران نے عالمی سول ایوی ایشن تنظیم کے ذریعے امریکا کو تحقیقات کی دعوت دی۔
امریکی اخبار کے مطابق آئی سی اے او کے ذریعے امریکا کے قومی ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈکو مدعوکیا گیاہے۔
اس حوالے سے ایران نے یوکرینی طیارہ گرنے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ بھی جاری کی ہے۔
ایرانی تفتیش کاروں کے مطابق گرنے سے قبل طیارے میں آگ لگی ہوئی تھی جبکہ اڑنے کے بعد وہ واپس مڑا مگر اس دوران جہاز کے عملے نے مدد کے لیے کوئی ریڈیو کال نہیں کی۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ طیارہ جیسے ہی 8 ہزار فٹ یعنی 24 سو میٹر کی بلندی پر پہنچا تو وہ ریڈار سے غائب ہو گیا اور طیارے کے کپتان نے کوئی ریڈیو میسج بھی نہیں بھیجا۔
یوکرین کے صدر کا کہنا ہے کہ ان کے ماہرین ایران پہنچ گئے ہیں اور ان کی ترجیح طیارے کے حادثے کی وجہ کا پتہ لگانا ہے۔
حادثے کا شکار ہونے والے تین سال پرانے اس طیارے کے دونوں بلیک باکسز بھی مل گئے ہیں جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے جب کہ ایران کے وزیرمواصلات کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 2014 میں روس نواز باغیوں نے مبینہ طور پر یوکرین میں ملائیشیا کے مسافر بردار طیارے کو نشانہ بنایا تھا جس میں 259 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے حملے کی ذمہ داری روس پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جدید اور مہلک روسی ہتھیاروں کی مدد کے بغیر طیارے کو گرانا ممکن نہیں تھا۔