12 جنوری ، 2020
ایرانی پاسداران انقلاب کی ذیلی تنظیم القدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے لیے اسرائیلی انٹیلیجنس نے امریکا کو خفیہ معلومات فراہم کی تھیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے لیے اسرائیلی انٹیلیجنس نے امریکاکی معاونت کی تھی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی سے ہی امریکاکو تصدیق ہوئی کہ سلیمانی دمشق سے بغداد کس طیارے میں آرہے ہیں۔
امریکا میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو ایک مخبر نے شام سے اطلاع دی تھی کہ قاسم سلیمانی کس طیارے میں سوار ہوں گے جس کے بعد اسرائیلی انٹیلیجنس نے مخبر کی اطلاع کی تصدیق کرتے ہوئے اس اطلاع کی توثیق کی تھی۔
نجی شامی ائیر لائن ’شام ونگز‘ کے ائیربس اے 320 کے بغداد ائیر پورٹ پر پہنچنے کے بعد وہاں موجود امریکی جاسوسوں نے قاسم سلیمانی کی آمد کی اطلاع امریکی فوج کو دی جس کے بعد ہیلی فائر میزائلوں سے لیس 3 امریکی ڈرون ہدف کی جانب روانہ ہوئے اور باآسانی ہدف کو نشانہ بنایا۔
اس دوران انہیں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیو نکہ عراق کی فضائی حدود مکمل طور پر امریکا کے زیراثر ہے۔
دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کی قاسم سلیمانی پر حملے سے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فونک گفتگو ہوئی تھی اور وہ خطے میں واحد رہنما تھے جو امریکا کی اس کارروائی سے آگاہ تھے۔
خیال رہے کہ 3 جنوری کو امریکا نے بغداد میں میزائل حملہ کرکے ایرانی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کردیا تھاجس کے جواب میں ایران نے 8 جنوری کو جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں موجود امریکی فوج کے دو ہوائی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔
ایران کی جانب سے اس حملے میں 80 ہلاکتوں کا بھی دعویٰ کیا گیا تاہم امریکا نے اس حملے میں کسی بھی امریکی فوجی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تردید کی ہے۔
اس کے بعد 8 جنوری کو ہی امریکی صدر ٹرمپ نے خطاب کیا اور ایران پر مزید سخت پابندیوں کے اعلان کے ساتھ ساتھ امن کی بھی پیشکش کی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز بھی اپنی خصوصی رپورٹ میں یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں امریکا کی مدد عراق اور شام میں موجود مخبروں نے کی۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی اور دیگر فوجیوں کے نام طیارے میں سوار مسافروں کی فہرست میں بھی شامل نہیں تھے۔
جنرل سلیمانی کے سیکیورٹی امور سے واقف ایک عراقی سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ سلیمانی اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر نجی طیارہ استعمال نہیں کرتے تھے۔
بغداد ائیر پورٹ پہنچنے کے بعد عراقی ملیشیا گروپ کتائب حزب اللہ کے سربراہ ابو مہدی المہندس اور سلیمانی کی ملاقات ہوئی جس کے بعد دونوں وہاں موجود دو گاڑیوں میں سے ایک میں داخل ہوگئے جبکہ گارڈز دوسری گاڑی میں سوار ہوگئے۔
ائیر پورٹ سے نکلنے کے بعد تقریباً رات 12 بجکر 55 منٹ پر امریکا کی جانب سے داغے گئے دو راکٹ اُس گاڑی پر لگے جس میں سلیمانی اور مہندس بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ ہی سیکنڈز بعد دوسری گاڑی بھی راکٹ کا نشانہ بن گئی۔
حملے کے چند منٹ بعد ہی عراقی تفتیش کاروں نے تحقیقات کا آغاز کردیا تھا جن کی تحقیقات کا مرکز ی نکتہ یہ تھا کہ امریکا کو سلیمانی کی پوزیشن کا پتہ کیسے چلا ؟
سیکیورٹی حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ عراق کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے تفتیش کاروں کو اس بات کے مضبوط اشارے ملے ہیں کہ بغداد ائیرپورٹ پر جاسوسوں کے نیٹ ورک نے حساس سیکیورٹی معلومات اور جنرل سلیمانی کی آمد سے متعلق امریکا کو آگاہ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عراقی تفتیش کاروں نے بغداد ائیرپورٹ کے دو سیکیورٹی اہلکاروں اور شام ونگز کے دو ملازمین کو شک کے دائرے میں لیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی یہ بتانے سے معذرت کی ہے کہ آیا عراق اور شام میں موجود مخبروں نے سلیمانی کی ہلاکت میں کوئی کردار ادا کیا یا نہیں۔