دنیا
Time 11 جنوری ، 2020

عراق اور شام کے مخبروں نے جنرل سلیمانی کے قتل میں امریکا کی مدد کی

سلیمانی رات ساڑھے 12 بجے بغداد ائیرپورٹ پہنچے، 12:55 پر امریکا نے نشانہ بنایا، مسافروں کی فہرست میں جنرل سلیمانی کا نام نہیں تھا— فوٹو: فائل 

ایرانی پاسداران انقلاب کی ذیلی تنظیم القدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں امریکا کی مدد عراق اور شام میں موجود مخبروں نے کی۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے اپنی خصوصی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی دو اور تین جنوری کی درمیانی شب کالے شیشوں والی گاڑی میں پاسداران انقلاب کے دیگر 4 فوجیوں کے ہمراہ دمشق ائیرپورٹ پہنچے۔ 

انہوں نے اپنی گاڑی نجی شامی ائیر لائن ’شام ونگز‘ کے ائیربس اے 320 کی سیڑھیوں کے پاس پارک کی اور طیارے میں سوار ہوگئے۔

رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے شام ونگز کے ایک ملازم نے بتایا کہ نہ ہی سلیمانی اور نہ دیگر فوجیوں کے نام طیارے میں سوار مسافروں کی فہرست میں شامل تھے۔

جنرل سلیمانی کے سیکیورٹی امور سے واقف ایک عراقی سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ سلیمانی اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر نجی طیارہ استعمال نہیں کرتے تھے۔

بغداد ائیرپورٹ کے دو حکام نے سیکیورٹی کیمرا فوٹیج کی بنیاد پر اس بات کی تصدیق کی کہ دو اور تین جنوری کی درمیانی شب رات 12 بجکر 30 منٹ پر وہ طیارہ بغداد ائیرپورٹ پر لینڈ کیا جس میں جنرل سلیمانی موجود تھے۔

اس کے بعد جنرل سلیمانی اور ان کے گارڈز کسٹمز کو ’بائے پاس‘ کرتے ہوئے طیارے سے سیدھا اس سڑک پر پہنچ گئے جہاں دو گاڑیاں ان کی منتظر تھیں۔

ائیرپورٹ حکام کے مطابق عراقی ملیشیا گروپ کتائب حزب اللہ کے سربراہ ابو مہدی المہندیس اور سلیمانی کی ملاقات طیارے سے نکلتے ہی ہوگئی تھی جس کے بعد دونوں وہاں موجود دو گاڑیوں میں سے ایک میں داخل ہوگئے جبکہ گارڈز دوسری گاڑی میں سوار ہوگئے۔

ائیرپورٹ سیکیورٹی آفیسرز سب دیکھ رہے تھے، اس دوران دونوں گاڑیاں ائیرپورٹ سے نکل کر مرکزی سڑک پر پہنچ گئیں۔ تقریباً 12 بجکر 55 منٹ پر امریکا کی جانب سے داغے گئے دو راکٹ اُس گاڑی پر لگے جس میں سلیمانی اور مہندیس بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ ہی سیکنڈز بعد دوسری گاڑی بھی راکٹ کا نشانہ بن گئی۔

حملے کے چند منٹ بعد ہی عراقی تفتیش کاروں نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ تحقیقات سے واقف دو سیکیورٹی حکام نے رائٹرز کو بتایا کہ عراق کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے ایجنٹس نے ائیرپورٹ کو سیل کردیا اور وہاں موجود سیکیورٹی اسٹاف، پولیس اہلکاروں، پاسپورٹ آفیسرز اور خفیہ ایجنٹس کو باہر جانے سے روک دیا۔

تفتیش کاروں کی تحقیقات کا مرکز یہ نکتہ تھا کہ امریکا کو سلیمانی کی پوزیشن کا پتہ کیسے چلا اور کیا یہ معلومات دمشق اور بغداد ائیرپورٹ پر موجود مخبروں نے امریکا تک پہنچائی جن کی مدد سے امریکا جنرل سلیمانی کو مارنے میں کامیاب رہا؟

عراقی تفتیش کاروں نے اس سلسلے میں بغداد ائیرپورٹ کے ملازمین، پولیس افسران اور شام ونگز کے ملازمین سے تفتیش کی۔

تحقیقات فالح الفیاض کی سربراہی میں کی گئیں جو کہ عراق کے قومی سلامتی کے مشیر ہیں اور ساتھ ہی وہ عراق کی سرکاری ملیشیا تنظیم الحشد الشعبی (Popular Mobilization Forces)) کے سربراہ بھی ہیں، اس تنظیم کا کام عراق کی بیشتر شیعہ ملیشیاؤں سے رابطے میں رہنا ہے جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے اور ان کے جنرل سلیمانی سے قریبی تعلقات تھے۔

سیکیورٹی حکام نے رائٹرز کو بتایا کہ عراق کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے تفتیش کاروں کو اس بات کے مضبوط اشارے ملے ہیں کہ بغداد ائیرپورٹ پر جاسوسوں کے نیٹ ورک نے حساس سیکیورٹی معلومات اور جنرل سلیمانی کی آمد سے متعلق امریکا کو آگاہ کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عراقی تفتیش کاروں نے بغداد ائیرپورٹ کے دو سیکیورٹی اہلکاروں اور شام ونگز کے دو ملازمین کو شک کے دائرے میں لیا۔ شام ونگز کے ملازمین میں سے ایک جاسوس دمشق ائیرپورٹ اور دوسرا طیارے کے اندر سے آپریٹ کررہا تھا۔

نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے تفتیش کاروں کو یقین ہے کہ یہ چاروں افراد، جنہیں حراست میں نہیں لیا گیا، کسی ایسے بڑے گروپ کے لیے کام کررہے تھے جو امریکی فوج کو معلومات فراہم کرتا ہے۔

شام ونگز کے دو ملازمین سے شامی خفیہ ایجنسی بھی تفتیش کررہی ہے تاہم اس حوالے سے شامی جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

دوسری جانب بغداد ائیرپورٹ کے دو سیکیورٹی اہلکاروں سے بھی تفتیش جاری ہے اور ابتدائی تفتیش سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جنرل سلیمانی کے بغداد آنے کی پہلی انفارمیشن دمشق ائیرپورٹ سے جاری ہوئی جبکہ بغداد میں موجود ایجنٹس کا کام ٹارگٹ کی آمد کی تصدیق اور قافلے کی معلومات فراہم کرنا تھا۔

تحقیقات کے حوالے سے عراق کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے بھی کسی تبصرے سے گریز کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے بھی یہ بتانے سے معذرت کی ہے کہ آیا عراق اور شام میں موجود مخبروں نے سلیمانی کی ہلاکت میں کوئی کردار ادا کیا یا نہیں۔

البتہ امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکا اس حملے سے کئی روز  پہلے سے سلیمانی کی نقل و حرکت پر نظر رکھ رہا تھا تاہم انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ حملے کی شب امریکا کو سلیمانی کی موجودگی کے مقام کا علم کیسے ہوا۔

رائٹرز کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر سے جنرل سلیمانی نے خفیہ طور پر عراق میں موجود امریکی فوجیوں پر حملوں میں تیزی پر کام شروع کردیا تھا اور عراقی ملیشیا کو اس مقصد کیلئے جدید ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔

خیال رہے کہ 3 جنوری کو امریکا نے بغداد میں میزائل حملہ کرکے ایرانی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کردیا تھاجس کے بعد ایران کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

8 جنوری کی علی الصبح ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں موجود امریکی فوج کے دو ہوائی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا جس میں 80 ہلاکتوں کا بھی دعویٰ کیا گیا تاہم امریکا نے اس حملے میں کسی بھی امریکی فوجی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تردید کی ہے۔

اس کے بعد 8 جنوری کو ہی امریکی صدر ٹرمپ نے خطاب کیا اور ایران پر مزید سخت پابندیوں کے اعلان کے ساتھ ساتھ امن کی بھی پیشکش کی۔

مزید خبریں :