پاکستان
Time 15 جنوری ، 2020

بوٹ کا معاملہ: نواز اور مریم معافی مانگیں میں بھی مانگ لوں گا: فیصل واوڈا

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے ’فوجی بوٹ‘ ٹی وی پروگرام کے دوران ٹیبل پر رکھنے کے معاملے پر کہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز معافی مانگیں تو میں بھی معافی مانگ لوں گا۔

جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹالک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ اس پر بحث کے لیے تیار ہوں کہ بوٹ والا عمل درست تھا یا نہیں، شو میں بوٹ لے جانے کی ذمہ داری میری تھی اور میں بوٹ تھیلے میں لے کر گیا تھا، تمام اداروں اور ان کی قربانیوں کی عزت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو میری بوٹ والی بات پسند نہیں آئی، میں نے وزیراعظم کو کہا آپ جو کہہ رہے ہیں درست کہہ رہے ہیں اور آئندہ ایسا نہیں ہوگا، ذمہ داری کا مظاہرہ کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی چارج شیٹ کارگل سے شروع ہوتی ہے، طیارہ ہائی جیک کیس میں نوازشریف کس کو انڈیا بھیج رہے تھے؟ نوازشریف نے کہا تھا کارگل کی تحقیقات کروں گا تو کس کے بارے میں کہا تھا؟

فیصل واوڈا کا مزید کہنا تھا کہ نوازشریف نے آخری بیانیے تبدیل کیے، خلائی مخلوق کس کا بیانیہ تھا؟ ہمیں سیلیکٹڈ کا سیلیکٹڈ آئٹم کہا گیا، ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ دے کر قوم کو ورغلایا گیا، ججوں کو کہا گیا لوہے کے چنے ہیں چبا کر دکھاؤ، بھارتی وکیل نے نوازشریف کے بیانیے کا حوالہ دیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ روزاپوزیشن آئینہ دیکھ کر بھاگ گئی، پلیٹیلیٹس کا ڈرامہ رچایا گیا، طیارے میں انگور کھاتے ہوئے گئے، قوم اورن لیگ کا ووٹر دیکھ رہا ہے کہ ایک بارپھریہ لوگ بیرون ملک بھاگ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور مریم ماضی میں ایک ادارے کیخلاف اپنائے جانے والے بیانیے پر معافی مانگیں میں تو میں بھی معافی مانگ لوں گا۔

دوران پروگرام مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ فیصل واوڈا کی کوئی حیثیت نہیں، ان سے یہ بات کرائی گئی اور یہ بات عمران خان نے کرائی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں ’بوٹ‘ ٹیبل پر رکھ کر اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں فیصل واوڈا نے ’بوٹ‘ ٹیبل پر رکھا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے لیٹ کر بوٹ کو عزت دی ہے، بوٹ کو چوم کر عزت دی ہے، کوئی شرم اور حیا ہے؟ قوم نے ان کی اصلیت دیکھ لی۔

اس دوران پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ کا کہناتھا کہ ’اگر بوٹ سامنے رکھ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ جو کرایا ہے فوج نے کرایا ہے تو ان کے کہنے کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ان کے کہنے پر نہیں فوج کے دباؤ پر ووٹ دیا ہے‘۔

اس صورتحال کے بعد قمر زمان کائرہ اور ن لیگ کے جاوید عباسی پروگرام چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ حکومت کے آرمی ترمیمی ایکٹ بلز کی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے حمایت کی تھی جس کے بعد یہ بلز قومی اسمبلی اور سینیٹ سے کثرتِ رائے سے منظور کرالیے گئے تھے۔

ان بلز کی جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں نے مخالفت کی تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں بھی ارکان نے حمایت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کیا ہے؟

یکم جنوری کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔

وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کا طریقہ کار وضع کیاگیا۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں ایک نئے چیپٹرکا اضافہ کیا گیا ہے، اس نئے چیپٹر کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کا نام دیا گیا ہے۔

اس بل میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت تین سال مقررکی گئی ہے جب کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے پر انہیں تین سال کی توسیع دی جا سکے گی۔

ترمیمی بل کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی مفاد اور ہنگامی صورتحال کا تعین کیا جائے گا، آرمی چیف کی نئی تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔

'دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی'

ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا۔

علاوہ ازیں ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائیر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر کریں گے۔

ترمیمی بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا، ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جاسکے گی۔

واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 کی رات 12 بجے مکمل ہورہی تھی اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں3 سال کی نئی مدت کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ سال 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید خبریں :