18 جنوری ، 2020
بہت سی بری خبروں کے ہنگام ایک اچھی خبر یہ ہے کہ حال ہی میں فصلوں پر یلغار کرنے والی ٹڈی دل کے حملے کو محکمہ زراعت نے ناکام بنا دیا ہے۔
ٹڈی دل کا قلع قمع کرنے کے لئے ہوائی جہاز کے ذریعے اسپرے بھی کیا گیا اور اس دوران رحیم یار خان کے علاقہ صادق آباد میں فصلوں پر اسپرے کرنے والا ایک چھوٹا طیارہ گرنے سے 2اہلکار شہید بھی ہوئے۔
زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ انسان کی حرص وہوس کبھی ختم نہیں ہوتی، ایسے میں زراعت سے وابستہ افراد کیوں پیچھے رہتے، وہ بھی اپنے کھیتوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا چاہتے تھے اس لئے محکمہ زراعت نے اُن کی آسانی کے لئے انواع و اقسام کی کھادیں اور زہریلے اسپرے متعارف کروانا شروع کر دیئے۔
میرا تعلق چونکہ جنوبی پنجاب کے اُس علاقے سے ہے جہاں کپاس اور گندم کی فصل بکثرت ہوتی ہے اس لئے اُن فصلوں سے متعلقہ کیڑوں سے آشنائی رہی۔ کسانوں کا خیال ہے کہ جب سے حکومتوں نے زرعی زمینیں تجربات کے لئے امریکی ماہرین کے حوالے کیں، تب سے مسائل بتدریج بڑھتے چلے گئے۔
فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے غیر ملکی بیج درآمد کیا گیا جس سے فصل قد آور ہوئی اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوا مگر فصل کو نقصان پہنچانے والے حشرات کی بھرمار ہو گئی۔ چتکبری سنڈی آئی، گلابی سنڈی، لشکری سنڈی اور پھر امریکن سنڈی نے تو فصلیں تہس نہس کر دیں۔
اسی طرح تھرپس، سفید مکھی، چست تیلا، سست تیلا اور جوئیں (mites)بھی تباہی مچاتی رہیں۔ ان سنڈیوں، کیڑوں اور مکھیوں کو تلف کرنے کے لئے زہریلی ادویات درآمد کرنا پڑرہی ہیں جس سے نہ صرف زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے بلکہ کسانوں کے اخراجات میں بھی بےتحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔
اِن زہریلی ادویات کا استعمال ابتدائی طور پر صرف کپاس جیسی فصلوں پر ہوتا تھا مگر اب تو غذائی اجناس بھی ان کی زد میں آگئی ہیں۔ کوئی ایک سبزی بھی ایسی نہیں جو کھاد اسپرے کے بغیر اگائی جا رہی ہو۔ اسی طرح کوئی پھل ایسا نہیں جو ان زہریلی ادویات کے اثرات سے محفوظ ہو۔
اس خطرناک رجحان کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ انسان کو خالص اور قدرتی غذائیں دستیاب نہیں لیکن اس کے ساتھ حیاتیاتی تنوع اور توازن بھی خراب ہو رہا ہے۔
جب حشرات کو اپنے تئیں ضرر رساں خیال کرتے ہوئے اُنہیں تلف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اُس کے نتیجے میں وہ ماحول دوست اور فصل پرور کیڑے مکوڑے بھی ختم ہو جاتے ہیں جو اچھی فصل کے لئے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں اور جب وہ ختم ہو جاتے ہیں تو پھر سنڈیاں موقع غنیمت جان کر فصل پر پل پڑتی ہیں۔
چند ماہ قابل عالمی ادارے نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایسے پودے، جانور، مکھیاں اور کیڑے مکوڑے جو انسانی خوراک پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، نہ صرف زوال اور انحطاط کا شکار ہیں بلکہ اُن کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔
اِس رپورٹ کے مطابق وہ حشرات الارض جنہیں ہم ناکارہ اور غیرضروری خیال کرتے ہیں، وہ بھی قدرتی توازن برقرار رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب انسان زراعت کی طرف مائل ہوا، فصلیں کاشت کرنا شروع کیں تو تب کسی قسم کی کھادیں اور اسپرے دستیاب نہ تھے اور نہ ہی محکمہ زراعت کا کوئی وجود تھا۔
انسانی ضروریات کے مطابق فصلیں لہلہاتی تھیں اور موجودہ دور میں سردرد بننے والی سنڈیوں کا تب وجود ہی نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماحول دوست اور فصل پرور کیڑے ان سنڈیوں اور مکھیوں کا کام تمام کر دیا کرتے تھے جو فصل کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوتے۔
ایک سائنسی تحقیق جوبائیولوجیکل کنزرویشن نامی عالمی ریسرچ جرنل میں شائع ہوئی ہے، کے مطابق انسان دوست مکھیوں، چیونٹیوں، بھنوروں اور کیڑے مکوڑوں کی 40فیصد انواع و اقسام نہایت تیزی سے معدوم ہورہی ہیں۔
جس کے نتیجے میں گھروں میں پائے جارہے حشرات جیسا کہ لال بیگ، مکھیاں اور مچھر وغیرہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی فصلوں کو نقصان پہنچانے والے حشرات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان انسان دوست حشرات کے معدوم ہونے کی بنیادی وجہ فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے کھاد اور اسپرے کا بےدریغ استعمال ہے۔
بتایا گیا ہے کہ محکمہ زراعت کی جانب سے جن حشرات کو ختم کیا جاتا ہے وہ دراصل ممالیہ جانوروں کی خوراک کا ذریعہ ہوتے ہیں، یہ مٹی کو زرخیز بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں، ضرر رساں کیڑوں کی تعداد کو کنٹرول میں رکھتے ہیں اور 75فیصد فصلوں کی تخم کاری کا سبب بنتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق محکمہ زراعت کی غلط پالیسیوں کے باعث ایک تہائی حشرات کی بقا خطرے میں ہے۔ اس تحقیق میں حصہ لینے والے سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر صورتحال تبدیل نہ ہوئی تو آخر میں صرف وہ کیڑے مکوڑے ہی باقی رہ جائیں گے جو فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور دنیا بھر میں غذائی اجناس کی کمی سے قحط کی سی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانے کا طریقہ کیا ہے؟ کس طرح حیاتیاتی تنوع اور توازن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے؟ عالمی ماہرین کے خیال میں محکمہ زراعت کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی، جن حشرات کو اپنے تئیں نقصان دہ خیال کیا جاتا ہے ممکن ہے وہ ماحول دوست ہوں۔
ہمارے ہاں حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی تمام ناکامیوں کی ذمہ داری محکمہ زراعت پر ڈال دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر آٹا جو گزشتہ سال کے آغاز میں 40روپے کلو تھا،اب 64روپے کلو ہو چکا ہے اس کی وجہ یہ ہے حکومت نے گزشتہ برس گندم کی خریداری کا ہدف پورا نہیں کیا، اگر کوئی اس نااہلی اور غیرذمہ داری پر بھی محکمہ زراعت کو مورد الزام ٹھہراتا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔