گندم سستی آٹا مہنگا، گنا سستا چینی مہنگی!

فوٹو فائل—

مجھے یاد، پچھلی ملاقات کے دوران میں نے وزیراعظم سے پوچھا ’’کوئی ایسے تین کام جو آپ ملک کیلئے کرنا چاہتے ہیں بولے ’’پاکستان کو سرمایہ کاری کا مرکز بنانا، صنعت و حرفت کا عروج اور چین کی مدد سے زراعت میں انقلابی تبدیلیاں لانا‘‘، یہ مشکل ٹاسک، لیکن دعا، اللہ کرے یہ تینوں کام ہو جائیں، سرمایہ کاری، انڈسٹری پر پھر کبھی بات ہوگی۔

 آج میرا موضوع زراعت، بلاشبہ وزیراعظم کی زراعت کو 100ارب کی سبسڈی بروقت فیصلہ، کیونکہ اس وقت ملکی زراعت، کسان، کاشتکار، خطرے کی گھنٹیاں بج رہیں، صورتحال یہ، ملک بھر کے کسان 18دسمبر کو اپنے بچوں کو لے کر اسلام آباد آنے کا منصوبہ بنا رہے، اسلام آباد آکر وہ اپنے بچوں کے اسٹال لگانا چاہ رہے، مطلب ’بچے فار سیل‘ کے اسٹال، ان کا کہنا، کاشتکاری اتنی مہنگی، بیویوں کے زیور تک بیچ دیئے، اب بچے رہ گئے ہیں، مجھے اچھی طرح یاد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کے دور حکومت میں بھی کسان سڑکوں پر آئے، احتجاج، جلسے، جلسوس، آنسو گیس، ماریں، جیلیں اور حاصل وصول صفر۔

یہاں سوال یہ، ایسے کیا حالات کہ کسان اپنے بچے بیچنے کی باتیں کررہے، تو جواب حاضر ہے، پچھلے ایک سال میں پیداواری لاگت 70فیصد بڑھ گئی جبکہ فصلوں کے ریٹ میں انیس بیس کا ہی فرق پڑا، جیسے پچھلے سال گنے کا ریٹ 180روپے فی من تھا، اس سال 190روپے فی من ،یعنی صرف 10روپے کا اضافہ، جب کہ دوسری طرف چینی 35چالیس روپے سے پچھتر 80روپے فی کلو تک جاپہنچی، یعنی ڈبل اضافہ، پچھلے سال گندم فی من 13سو روپے، اس سال 1365روپے فی من، یعنی 65روپے فی من اضافہ، دوسری طرف یوریا کھاد پچھلے سال 1300روپے فی بوری تھی، اس سال 2040روپے فی بوری یعنی فی بوری 740روپے اضافہ، ڈی اے پی کھادپچھلے سال 2400روپے فی بوری تھی، اس سال 3700روپے فی بوری یعنی 13سو فی بوری اضافہ، ڈیزل پچھلے سال 80روپے فی لیٹر تھا، اس سال 126روپے فی لیٹر یعنی 46روپے فی لیٹر اضافہ، پچھلے سال بجلی فی یونٹ 5روپے 35پیسے تھی، اس سال 15سے 25روپے فی یونٹ یعنی 10سے 20روپے فی یونٹ اضافہ ہوا ہے۔

اب خود اندازہ لگا لیں، گنا 10روپے اور گندم 65روپے فی من بڑھی جبکہ کھادوں، ڈیزل، بجلی میں ڈبل، ٹرپل اضافے، کسانوں کا رُلنا تو بنتا ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی، اس سال کپاس کا ٹارگٹ تھا 15ملین گانٹھیں ،حاصل ہوئیں 8ملین گانٹھیں، یعنی 7ملین گانٹھوں کا خسارہ، یعنی 7ارب ڈالر کا خسارہ، اس خسارے کو یوں دیکھیں کہ ہمیں اتنی محنتوں کے بعد آئی ایم ایف سے 3سال کیلئے 6ارب ڈالر قرضہ ملا۔

 جبکہ اِدھرہمیں کپاس میں صرف ایک سال میں 7ارب ڈالر کا خسارہ ہو گیا، یہ کیوں ہوا، یہ اس لئے ہوا کہ شوگر مافیا، وڈیرا گٹھ جوڑ نے کپاس کی جگہ گنا کاشت کیا، کروایا، چھوٹا کاشتکار رُل گیا، وڈیروں کے مزے ہو گئے، بات ابھی ختم نہیں ہوئی، کپاس پروڈکٹس ہماری ایکسپورٹ کا 60فیصد، یعنی اگر ہماری 23ارب ڈالر ایکسپورٹ تو کپاس پروڈکٹس ایکسپورٹ 14ارب ڈالر، لیکن اسکے باوجودکپاس وزیراعظم ایمرجنسی پلان میں نہیں، پھر کپاس باہر سے آئے تو 5 فیصد ڈیوٹی، لیکن چینی باہر سے آئے تو 34فیصد ڈیوٹی، کیوں سمجھ آئی یا نہیں، بات یہ کوئی باہر سے کپاس منگوانا چاہے تو رسمی سی ڈیوٹی، چینی منگوانا چاہے تو ہیوی ڈیوٹی، یعنی کپاس باہر سے منگوانا آسان، اسی لئےلوگ کپاس باہر سے منگوا رہے، یہاں اپنی کپاس کا کوئی خریدار نہیں اوریوں اپنا کپاس کاشتکار خسارے میں چونکہ چینی پر ہیوی ڈیوٹی، چینی باہر سے منگوانا مشکل، لہٰذا سب اپنی چینی خرید وفروخت کررہے، یوں شوگر مافیا کے مزے، یہ بھی سن لیں، اس سال کپاس کے ساتھ ساتھ گندم کی 20فیصد کم پیداوار،چاول کی 30فیصد اور مکئی کی 30فیصد کم پیداوار ہوئی۔

بات اب بھی ختم نہیں ہوئی، 30اپریل 2019کو پارلیمنٹ میں متفقہ قرارداد پاس ہو کہ کاشتکاروں کو کپاس کی امدادی قیمت دی جائے گی، باہر سے کپاس لانے پر ڈیوٹی لگائی جائے گی اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی ) کاشتکاروں سے کپاس خریدے گا مگر پوری کی پوری پارلیمنٹ پر ایک رزاق داؤد بھاری نکلے، آسان لفظوں میں پارلیمنٹ ہار گئی، رزاق داؤد جیت گئے، اور آسان لفظوں میں کسان ،کاشتکار ہار گئے، سرمایہ کار، تاجر، صنعتکار جیت گئے، یہ یہی سرمایہ کار، صنعتکار، وڈیرا گٹھ جوڑ کہ ایک تو چینی کی قیمت میں ڈبل اضافہ اوپر سے شوگر ملوں کو حکومتی سبسڈیاں، رعایتیں، 2017میں چینی پر سبسڈی تھی 10روپے 70پیسے فی کلو، اب 6روپے 60پیسے فی کلوسبسڈی، ہیں نا شوگر مافیا کے مزے، گنا خریدیں 190روپے فی من، چینی بیچیں 75سے 80روپے فی کلو اوپر سے حکومت سے فی کلو 6روپے 60پیسے بھی لے لیں اور کیا چاہئے، کیا زرعی ملک، گندم سستی، آٹا مہنگا، گنا سستا، چینی مہنگی، گندم سستی کا مطلب کاشتکاروں کا نقصان، آٹا مہنگا ہونے کا مطلب فلور ملوں والوں کے مزے، گنا سستا ہونے کا مطلب کاشتکاروں کا نقصان، چینی مہنگی ہونے کا مطلب شوگر مل والوں کے مزے، یعنی بات جہاں سے شروع کریں، بات جہاں ختم کریں، نقصان بےچارے کاشتکار کا، خسارے میں بےچارہ کسان۔

بات ابھی بھی ختم نہیں ہوئی، بھارت میں 2018میں کسانوں کو صرف کھادوں پر 17سو ارب کی سبسڈی، رعایت دی گئی، بھارت میں چھوٹے کاشتکاروں کیلئے بجلی فری، یہاں زرعی ملک میں زراعت کی اہمیت یہ، زراعت ریسرچ پر جی ڈی پی کا 0.1فیصد خرچ ہورہا، اب اس زراعت تباہی، بربادی کا وفاق کے ساتھ صوبے برابر کے حصہ دار کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہر صوبہ بااختیار، خود مختار بلکہ ہر صوبہ ایک ملک مگرکیا کہیں، کسے کہیں، زراعت، کسان، کاشتکار، دھرتی ماں کے یہ بیٹے کہہ رہے، ہماری بس ہو گئی، اب ہمارے پاس بچوں کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، 100ارب سبسڈی وزیراعظم کا بروقت فیصلہ، لیکن دعا یہ ہے کہ  یہ ریلیف نیچے چھوٹے کسان، کاشتکار تک پہنچ جائے۔

مزید خبریں :