Time 03 فروری ، 2020
پاکستان

ق لیگ نے مطالبات پر عملدرآمد تک نئی حکومتی کمیٹی سے مذاکرات سے انکار کردیا

مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے معاہدے پر عمل درآمد کے بغیر نئی حکومتی کمیٹی سے مذاکرات سے انکار کردیا۔

نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی کا وزیراعظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے حوالے سے کہنا تھا کہ نئی کمیٹی بنی تو ہمارا شک یقین میں بدل گیا ہے، عمران خان فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیں کیوں کہ فیصلہ لینےکے بعد اس کو واپس لینے پر ان کی ساکھ پر فرق پڑتا ہے، وہ وزیراعظم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے 5 ارکان قومی اسمبلی ہیں جنہوں نے اپنے علاقوں میں اسکیموں کا اعلان کیا لیکن اب نئی کمیٹی نے پیسے ریلیز کرنے سے روک دیا ہے، گزشتہ روز فیصلہ کیا ہے کہ طے شدہ معاملات پر عمل درآمد کے بعد نئی کمیٹی سے ملاقات ہوگی۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سال میں 3 مرتبہ عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے، اِس حکومت کےاُس طرح سےاتحادی نہیں جس طرح زرداری صاحب کے تھے، ہم نے سارے اتحاد دیکھے ہیں اور سب سے ٹف اتحاد جماعت اسلامی کے ساتھ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے خان صاحب کا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد برا ثابت ہوا اور شاید خان صاحب کولگتا ہے سب اتحادی جماعت اسلامی کی طرح ہوتے ہیں۔

چوہدری پرویز الٰہی نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ تحریری معاہدہ ہوا تھا، پرانی کمیٹی نے اُس معاہدے کی توثیق بھی کی۔

پنجاب میں انتظامی تبدیلیوں کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں 50 آئی جی اورچیف سیکرٹری لگادیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہم مشورے لے کربازار میں نہیں پھرتے، کوئی پوچھے گا تو بتائیں گے، ان کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہمیں بھی نقصان ہوگا، پنجاب میں ڈیلیور نہیں ہورہا، پونے 2 سال سے پنجاب تجربے کی زد میں ہے۔

ق لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں اتحاد کی بات جب سامنے آئے گی تب دیکھیں گے، سوکن کی گھر میں کیا حالت ہوتی ہے،اِس وقت ہمارے جذبات ویسے ہی ہیں۔

اپنے مطالبات کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ شروع میں جو چیزیں طے ہوئیں وہ پوری نہیں ہوئیں، وفاق اورپنجاب میں 2 وزارتوں کی بات ہوئی تھی، مجھے اسپیکر بننے کا کوئی شوق نہیں تھا اور ہم نے کہہ دیا تھا کہ مونس کو وزارت نہیں چاہیے۔

خیال رہے کہ مونس الٰہی اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے اور رکن قومی اسمبلی ہیں، مونس الٰہی خود بھی کہہ چکے ہیں کہ عمران خان سے یکم جنوری کو ملاقات ہوئی، ملاقات میں ایسا لگا کہ شاید وہ مجھے پسند نہیں کرتے، اس لیے کابینہ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔

چوہدری پرویز الٰہی کا وزیراعظم عمران خان سے متعلق کہنا تھا کہ ’چاہتے تھے کہ خان صاحب سے تعلقات بڑھائیں، کسی کو جاننا اور اتحادی بن کرکام کرنا الگ بات ہے، عمران خان ، اچھے اوردیانتدارآدمی ہیں، چاہتے ہیں وہ کامیاب ہوں‘۔

انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’نام لیے بغیرکہتا ہوں عمران خان ساتھیوں کی وجہ سے گمراہ نہ ہوں کیوں کہ سیاست میں اعتبار ختم ہوجائے تو وہ بحال نہیں ہوتا‘۔

یاد رہے کہ وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود نے لاہور میں چوہدری برادران سے ملاقات کی اور  وزیراعظم عمران خان کا خصوصی پیغام پہنچایا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ملاقات خوشگوارماحول میں ہوئی اور اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے تمام خدشات بہت حد تک حل ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز چوہدری شجاعت حسین نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو اتحادیوں سے نہیں اپنے لوگوں سے ہی خطرہ ہے۔

مسلم لیگ (ق) تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے جو مرکز اور پنجاب میں حکومتوں میں شامل ہیں، قومی اسمبلی میں ق لیگ کے 5 ارکان قومی اسمبلی ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی میں 10 ارکان ہیں۔

گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ق) نے وعدے پورے نہ ہونے پر حکومت سے ناراضی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی تھی جس میں ق لیگ نے حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔

مزید خبریں :