13 فروری ، 2020
کالے قول اسی لئے سنبھال رکھے ہیں کہ جب باقی ہر شے سے بے زاری اور اکتاہٹ عروج پر پہنچ جائے تو خاکسار خاموشی سے کالے قولوں کی ’’پناہ گاہ‘‘ یا ’’گناہ گاہ‘‘ میں عافیت تلاش کرے۔
مہنگائی مصنوعی طریقہ سے بڑھائی تو جا سکتی ہے، گھٹائی نہیں جا سکتی۔
میں اس بات پر حیران ہوں کہ انسان، انسانوں کی موجودگی میں بھی نہ صرف زندہ بچ گئے بلکہ ان کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔
ایک طرف ’’بلو کا گھر‘‘ ہے دوسری طرف ’’چھنو کی آنکھ‘‘ تو سمجھ نہیں آ رہی کس طرف جائوں۔
’’ستاروں پہ کمند‘‘ نہ ڈال سکے تو بھنگڑا، لڈی، دھمال اور گند ڈالنے میں مصروف ہو گئے۔ جو یہ کچھ نہ کر سکے وہ ووٹ ڈالنے لگے۔
حکومت اتنا بھی نہیں جانتی کہ بیہودہ سکرپٹ پر بنائی گئی فلم صرف ’’سپیشل ایفکٹس‘‘ کے زور پر نہیں چل سکتی۔
مہنگائی اک خاص حد سے بڑھ جائے تو قیمتی ترین چیزیں بہت سستی ہو جاتی ہیں۔
جلد بازی میں آہستگی سے کام لو (خاص طور پر حکومت کیلئے)
تمہارا اپنا ہاتھ ہی تمہارا بہترین ساتھ ہے۔
مُکّے کے ساتھ مصافحہ ممکن نہیں۔
ہر بادل میں برسات نہیں ہوتی۔ہر ’’سرخی‘‘ سچی نہیں ہو سکتی۔
پچھتاوے پیچھے چھوڑ کے آ۔
انسانی فطرت ایک سی، صرف عادتیں مختلف ہوتی ہیں جیسے ہاتھ ایک سے لیکن فنگر پرنٹس مختلف، خون کا رنگ ایک سا لیکن گروپ مختلف۔
صرف ایک آدمی پر مشتمل ’’کمیٹی‘‘ ہی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔
بچہ مشورہ نہیں ذاتی مثال مانتا ہے۔ لیبارٹری عظیم ترین حجرہ ہے۔
ردعمل نہیں....صرف ’’عمل‘‘ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ہر وہ بٹوہ خالی ہے جس میں کوئی تصویر نہیں۔
کبھی کبھار مفت مشورہ، مہنگے ترین مشورہ سے بہتر ہوتا ہے۔
لامحدود کی بھی حدود ہوتی ہیں اعتماد....اہلیت کے بعد کی بات ہے۔گونگا جتنی بھی محنت کر لے، گلوکار نہیں بن سکتا۔
جس درخت کی جڑیں ننگی ہو جائیں، اسے کوئی موسم سوکھنے سے نہیں بچا سکتا۔
جنت اک ایسا مقام ہے جو صرف ان کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو خود کو اس کیلئے تیار کرتے ہیں۔
زیبرے اپنی لکیریں اور انسان اپنی خصلت نہیں چھپا سکتا۔
اپنے ہاتھوں سے لگائے درخت کا پھل زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔
آزاد ہونے کیلئے ’’آزادی ‘‘ضروری نہیں، حضرت بلال حبشیؓ غلام ہوتے ہوئے بھی ’’آزاد‘‘ ہی تھے اور ہم میں سے بیشتر آزاد ہوتے ہوئے بھی غلام ہی ہیں۔
ناکامی کو کامیابی کی پہلی قسط سمجھو۔
کامیابی کے دروازہ پر بھی "PUSH" لکھا ہوتا ہے۔
رینگنے کے بعد ہی چلنا آتا ہے۔
ضروری نہیں کہ ہر سچی بات اچھی بھی ہو۔
کبھی کبھی فی البدیہہ تقریر بغیر بریکوں کی گاڑی ثابت ہوتی ہے۔
ٹوٹے ہوئے ستار پر ملہار ناممکن ہے۔
خود کو پانے کے لئے .....خود کو کھو دینا بہت ضروری ہے۔