21 فروری ، 2020
ہر چمکنے والی شے سونا ہوتی ہے نہ ہر سنی سنائی بات سچ۔ میرا طالب علمانہ ذہن تو اس سنی سنائی بات کو سچ نہیں مانتا اگرچہ اسے بہت سے لکھاری لکھ بھی چکے ہیں۔ ہمارے ملک کا سب سے زیادہ طاقتور حکمران ایوب خان تھا۔ جہاں ایوبی اقتدار کا اصل سرچشمہ اور تقویت فوج تھی وہاں ملکی استحکام، امن اور معاشی ترقی بھی ایوب کی طاقت کا باعث تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب آمرانہ انداز میں حکومت پر خزاں آتی ہے تو وہ ہفتوں اور مہینوں میں درختوں سے گرتے پتوں کی مانند بکھرنے لگتی ہے۔ طاقت کے سارے سر چشمے اور ذریعے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ایوب خان کا زوال تیزی سے جاری تھا تو سارے ملک میں افواہوں کے جھکڑ چل رہے تھے۔
یحییٰ خان نے سازشوں اور حکمتِ عملی کے ذریعے ایوب خان کو بےبس کر رکھا تھا حتیٰ کہ اس کے ذرائع انفارمیشن بھی مسدود کر دیے گئے تھے۔ ایک طرف یحییٰ خان گھیراؤ جلاؤ کی ایوب مخالف تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا تو دوسری طرف خوفناک خبروں میں نمک مرچ لگا کر ایوب خان کو پیش کیا جاتا تھا تاکہ وہ خوفزدہ ہو کر مستعفی ہو جائے۔
یحییٰ خان کی حکمتِ عملی کامیاب رہی۔ ایوب خان نے اپنے آئین کے مطابق اقتدار اسپیکر اسمبلی کو منتقل کرنے اور انتخابات کا ڈول ڈالنے کے بجائے ڈر کے مارے اقتدار یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے خود ساختہ خبروں کے ذریعے قائل کر دیا گیا تھا کہ ان حالات میں سویلین سیٹ اپ کامیاب نہیں ہو سکتا اور فوج کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں۔
لارنس زائرنگ سے لے کر کئی مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ایوب خان کے تیزی سے زوال اور اقتدار سے محرومی کی بہت سی وجوہ تھیں لیکن ایک اہم وجہ صحیح اطلاعات سے محرومی اور ملکی صورتحال سے کم آگاہی تھی۔ جس سنی سنائی کو میرا ذہن تسلیم نہیں کرتا وہ یہ ہے کہ ایوب خان خوشامد کا اس قدر خوگر ہو چکا تھا کہ اس کے لئے مخصوص اخبار چھاپا جاتا تھا جس سے تلخ خبریں نکال دی جاتی تھیں۔
کہتے ہیں کہ اس کا اہتمام ایوب خان کی وزارتِ اطلاعات کرتی تھی۔ جس ملک میں پچاس ساٹھ اخبارات چھپتے ہوں وہاں ایک شخص کے لئے ایک مخصوص اخبار چھاپنا اور اسے دوسرے اخبارات سے دور رکھنا افسانہ لگتا ہے۔ اس رام کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب حکمران صرف خوشامد سننے اور اپنی پسند کی خبریں پڑھنے کے عادی ہو جائیں تو وہ عوامی جذبات، ملکی مسائل اور حکومتی ناکامیوں کے ادراک سے محروم ہو جاتے ہیں اور دراصل یہی ان کے اقتدار کے اختتام کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے۔
پرانے زمانے میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا جیسے موڈ خراب کرنے والے ذرائع نہیں ہوتے تھے۔ اکثر اخبارات حکومت کے درباری تھے لیکن چند ایک محتاط سچ لکھنے کی جسارت کرتے تھے۔ اگر ایوب خان آزادیٔ اظہار کا گلا نہ گھونٹتا تو اسے عوامی بےچینی، مسائل اور حکومت اور عوام کے درمیان پھیلتی خلیج کا ادراک ہوتا چنانچہ وہ ان امراض کا علاج کر سکتا تھا اور ان کے تدارک کے لئے اقدامات بھی۔ زوال تو اقتدار کا مقدر ہے لیکن شاید ایوب خان بہتر حکمتِ عملی اختیار کرکے اس قدر تیزی سے نفرت آمیز رخصتی کا نشانہ نہ بنتا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بیدار مغز حکمرانوں کا عرصۂ حکمرانی ہمیشہ طویل ہوتا ہے۔ بیدار مغز کون ہوتا ہے؟ بیدار مغز حکمران وہ ہوتا ہے جس کی انگلی عوامی نبض پر ہو۔ عوامی نبض پر انگلی رکھنے کے لئے سچ اور آزاد ذرائع اطلاعات ناگزیر ہوتے ہیں۔ خوشامد حکمرانوں کی بیدار مغزی کو گہری نیند سلا دیتی ہے۔ وہ ’’سب اچھا ہے، عوام میرے پجاری ہیں‘‘ کے جام نوش فرما کر آمرانہ اور جابرانہ فیصلے کرنے لگتے ہیں اور لذتِ اقتدار میں مست ہو جاتے ہیں۔
بہت سی حکومتوں کو زوال پذیر اور رخصت ہوتے دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کی ذلت و خواری کی ایک وجہ (واحد وجہ ہرگز نہیں) سچ سے دوری تھی۔ مجھے کہنے دیجئے کہ سچ کی ایک اپنی برکت ہوتی ہے، ایک اپنی روشنی ہوتی ہے، سچ کی برکت سے دعائیں جنم لیتی ہیں اور دعائیں کسی بھی حکمران کی تقویت کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں۔
اے کاش! کوئی صاحبِ جنوں یہ بات عمران خان کو بھی سمجھائے۔ کہتے ہیں عمران خان نیک نیت انسان ہے لیکن نیک نیتی کو ثمر آور ہونے کے لئے سچ سے سیراب کرنا پڑتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ قومی ہیرو کے مائنڈ سیٹ نے خوشامد کو اس کی کمزوری بنا دیا ہے اور اپنی ذات پر حد درجہ اعتماد نے اسے نرگسیت کا شکار کردیا ہے۔ یہ دونوں امراض سچ کے دشمن ہیں اور زوال کی خشتِ اول ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ حکومت میڈیا سے گھبرا کر اسے پابند کرنے کے طریقوں پر غور کر رہی ہے اگرچہ حکمران برملا کہتے ہیں کہ انہیں اقتدار تک لانے میں میڈیا نے بھرپور کردار سرانجام دیا، اسے ناشکری کہتے ہیں۔
اخباری خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران خوابِ غفلت سے جاگ رہے ہیں۔ عمران خان مہنگائی جیسے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے بےچین ہے اور اس حوالے سے سخت اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے مارچ میں حکومت مخالف تحریک چلانے کی دھمکی اقتدار کی نیند میں مخل ہوئی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ آزاد میڈیا کی برکت سے عمران خان تک سچ پہنچا ہے جس نے اسے تڑپا دیا ہے۔
اگر میڈیا عوامی تکالیف کی چیخ و پکار نہ سناتا تو شاید اقتدار بھی ہوش کے ناخن نہ لیتا۔ اس لئے ہم عرض کرتے ہیں کہ سچ پر قدغن لگا کر اپنے آپ سے دشمنی نہ کریں۔ سچ کی روشنی سے محروم نہ ہوں۔ سچ کی اپنی برکت ہوتی ہے جس سے عوامی دعائیں جنم لیتی ہیں اور یہی دعائیں حکومت کی مضبوطی اور کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔ سچ سے محرومی بدقسمتی ہے اور زوال کی خشت ِاوّل ہے۔