28 فروری ، 2020
ٹورنٹو: بھارت میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے باعث کینیڈا نے اپنے شہریوں کو بھارت جانے سے گریز کرنے کی ہدایات کر دی۔
کینیڈا نے بھارت کی حالیہ صورتِ حال اور مسلم کش فسادات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر اپنے شہریوں کے لیے سفری پابندیوں کے احکامات جاری کیے ہیں۔
کینیڈین حکومت کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق کینیڈین شہری بھارت کے سفر سے گریز کریں، خاص طور پر گجرات، پنجاب، راجستھان، اروناچل پردیش، آسام اور منی پور جانے میں احتیاط برتی جائے۔
اس کے علاوہ کینیڈین حکومت نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ پاکستان اور بنگلا دیش کی سرحدوں پر بھارتی شہروں میں بھی جانے سے گریز کیا جائے۔
دوسری جانب برطانیہ کی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں جاری جان لیوا حملوں اور پرتشدد کارروائیوں پر صدمے کا شکار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اختلاف کرنا اور احتجاج کرنا عوام کا حق ہے، انسانی حقوق کا بین الاقوامی قانون مذہبی آزادی اور مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
جیریمی کوربن نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں کسی ایک اقلیت یا مذہبی گروپ کی بالادستی نہیں ہونی چاہیے، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ پہلے بھی اٹھایا اور آئندہ بھی اٹھاتا رہوں گا۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سمیت مختلف شہروں میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے، اس دوران ہونے والے فسادات میں اب تک 38 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد مسلمان بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا بھی خدشہ ہے۔
بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔
پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیرالہ اس قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔