بلاگ
Time 17 مارچ ، 2020

ایمان، کورونا اور نیب

اگر نیب کو یہ ڈر تھا کہ ملک سے چلے نہ جائیں تو ای سی ایل میں نام ڈالا جا سکتا تھا، انہیں ایک دہائیوں پرانے کیس میں گرفتار کر لینا سمجھ سے باہر ہے—

تاریخ بتاتی ہے انسانوں نے جب بھی ظلم کیا، انہیں ظلم کا حساب دینا پڑا۔ ظالم کو ظلم کرتے وقت اندازہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا ہے، اس کے خوشامدی مشیر اسے یہ بات بتاتے رہتے ہیں کہ ’’تم بہت طاقتور ہو‘‘ وہ بھی ان کے جھانسے میں آ جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیشہ طاقتور رہے گا۔

وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہمیشہ طاقتور رہنے والی ذات صرف اور صرف ربِ کائنات کی ہے۔ ایک اللہ، بس سب جہانوں میں وہی طاقتور ہے۔ مگر ظالم کہاں سمجھتے ہیں تاریخ ایسے ظالموں سے بھری پڑی ہے جو اپنے ظلم کے باعث ایمان سلامت نہ رکھ سکے۔ ظالموں کی اکثریت تو ویسے ہی ایمان سے دور رہی کیونکہ صاحبِ ایمان ظالم نہیں ہو سکتا۔

تاریخ بتاتی ہے بعض قومیں بھی حد سے گزر گئیں، جب وہ باز نہ آئیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تہس نہس کر دیا، ان پر عذاب مسلط کر دیے، ان کی شکلیں بگاڑ دیں، ان کو لاعلاج امراض میں مبتلا کر دیا، بےشک یہ سب کچھ کرنے پر قدرت رکھنے والا ایک ہی خدا ہے۔

نمرود نے بہت ظلم کیا اور پھر ایک مچھر نے اسے بےچین کرکے رکھ دیا۔ ابراہیمؑ نے صبر کیا تو خدا نے نارِ نمرود کو گلستاں بنا کے رکھ دیا، کئی ماہ تک دہکائی جانے والی آگ، ابراہیمؑ کیلئے فوراً ٹھنڈی ہو گئی۔ فرعون زندگی بھر ظلم کرتا رہا، خدائی کے اس دعویدار نے خلقِ خدا کو ہمیشہ تنگ کیے رکھا۔ پھر ایک دن اسے دریا کی لہروں نے ہمیشہ کیلئے نشانِ عبرت بنا دیا۔

تمام تر ہنسی مذاق اور ظلم پر صبر کرنے والے موسیٰ ؑکو بالآخر فتح ہوئی۔ یزید نے طاقت کے نشے میں اندھا ہوکر رسولﷺ کے گھرانے کے افراد کو شہید کیا، زندہ بچ جانے والوں کو رسوا کرنے کی کوشش کی۔

شہید ہونے والوں کا نام پوری دنیا میں آب وتاب سے زندہ ہے مگر ظالم یزید کے نام پر تاریخ خاک ڈال چکی ہے، ظالم نے جنہیں رسوا کرنے کی کوشش کی، ان کا نام دنیا احترام سے لیتی ہے اور ظالم کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتی کہ بقول محسن نقوی

وہ جو مٹ گیا وہ یزید تھا

جو نہ مٹ سکا وہ حسینؓ ہے

تاریخ بتاتی ہے کہ 7ذوالحج 317ہجری کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان نے مکہ معظمہ پر قبضہ کیا۔ خوف کے عالم میں حج نہ ہو سکا، ابو طاہر سلیمان خانہ کعبہ سے حجرِ اسود نکال کر بحرین لے گیا۔

پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر بلّا نے ابو طاہر کےساتھ ایک معاہدہ کرکے تیس ہزار دینار کے عوض حجرِ اسود کو واپس لاکر بیت اللہ کی زینت بنایا۔ حجرِ اسود کی یہ واپسی 339ہجری میں ہوئی، یعنی 22برس خانہ کعبہ حجرِ اسود کے بغیر رہا۔ علامہ سیوطیؒ کے مطابق جب حجرِ اسود کی واپسی کا معاہدہ طے پا گیا تو حجرِ اسود کی وصولی کیلئے بنو عباس کے خلیفہ نے ایک محدث عبداللہ کو وفد کے ساتھ بھیجا۔

حجرِ اسود کی حوالگی کے لئے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں ایک خوبصورت غلاف سے ایک خوبصورت پتھر شیخ عبداللہ کے حوالے کیا گیا اور کہا گیا کہ ’’یہ حجرِ اسود ہے‘‘ محدث شیخ عبداللہ نے اس مرحلے پر کہا ’’حجرِ اسود کی دو نشانیاں ہیں، اگر وہ نہ ہوئیں تو پھر یہ پتھر حجرِ اسود نہیں، پہلی نشانی یہ ہے کہ حجرِ اسود ڈوبتا نہیں اور دوسری نشانی یہ کہ آگ سے بھی گرم نہیں ہوتا‘‘۔

حاضرین کے سامنے چیک کیا گیا تو پتھر ڈوب گیا اور آگ میں ڈالنے پر گرم ہو کر پھٹ گیا، بحرین کے حاکم کی جانب سے دوسرا پتھر لایا گیا وہ بھی پانی میں ڈوب گیا اور آگ سے پھٹ گیا اس پر محدث شیخ عبداللہ نے کہا کہ ’’آپ دوسرے پتھر نہ لائیں ہمیں حجرِ اسود دیں۔

ہم حجرِ اسود ہی لے کر جائیں گے‘‘ اس کے بعد ایک پتھر لایا گیا چیک کیا گیا تو وہ نہ پانی میں ڈوبا اور نہ ہی آگ میں گرم ہوا۔ شیخ عبداللہ نے کہا ’’ہاں یہی حجرِ اسود ہے، اسے ہم لے جائیں گے، یہی جنت کا پتھر ہے‘‘۔ بحرین کے حاکم ابو طاہر کو بڑا تعجب ہوا تو اس نے شیخ عبداللہ سے پوچھا کہ ’’یہ نشانیاں، یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں؟‘‘ محدث عبداللہ بولا ’’یہ باتیں ہمیں رسولﷺ سے ملی ہیں کہ حجرِ اسود پانی میں ڈوب نہیں سکتا اور نہ ہی آگ میں گرم ہو سکتا ہے‘‘۔

خواتین و حضرات! بحرین کے اس ظالم حکمران ابو طاہر کا کچھ پتا نہیں مگر حجرِ اسود کو دنیا آج بھی بوسے دیتی ہے، چومنے والوں کا رش رہتا ہے۔ ظالموں کی تاریخ میں ایک حجاج بن یوسف بھی تھا، اس نے انسانوں پر بہت ظلم کیے، وہ منجنیق سے تین روز تک کعبے پر پتھر برساتا رہا۔

پھر وہ ظالم ایک ایسے مرض میں مبتلا ہو گیا کہ اسے گرمیوں میں بھی سردی لگتی تھی، گرم موسم میں بھی اس کے پاس الائو جلایا جاتا مگر وہ پھر بھی کانپتا رہتا، اس کی جلد جل گئی اور وہ مر گیا... مگر انسان تاریخ سے سبق کہاں سیکھتے ہیں، نہ کل کا ظالم سوچ سکا اور نہ آج کا ظالم سوچتا ہے۔

کورونا وحشت بن کے پھیل گیا ہے، دنیا خوف میں مبتلا ہے، ہر طرف ویرانی بکھری پڑی ہے، رونق بخشنے والے سارے مقامات سنسانی کی علامت بن چکے ہیں، نقاب کا طعنہ دینے والے نقابوں میں الجھ کے رہ گئے ہیں، ساری ترقی کدھر گئی، کدھر گئی ۔

وہ میڈیکل سائنس، جس پر انسان اکڑتا پھرتا تھا۔ سارے بہادر ہاتھ ملانے سے کتراتے ہیں، موت کے خوف میں مبتلا انسان جمع ہونے سے بھی ڈرتے ہیں، مذاہب کے ٹھیکیداروں کو چپ لگی ہوئی ہے، ہاں! صرف چند اہلِ ایمان باقی ہیں جنہیں کورونا سے ڈر نہیں لگتا، جو موت سے خوف زدہ نہیں، جو صرف اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اپنے رب ہی سے رحمت مانگتے ہیں۔

کورونا تو اب آیا، پاکستان میں نیب پہلے ہی سے خوف کی علامت ہے۔ جو لوگ پہلے پکڑے گئے، کمزور مقدمات کی بنا پر رہا ہو گئے، نیب کو رسوائی ہوئی۔ حال ہی میں نیب نے میڈیا کی اہم شخصیت میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا ہے۔ احتساب حق سہی مگر صفائی کا موقع دینا بھی تو حق ہے۔

جب میر صاحب پیش ہو رہے تھے تو پھر گرفتاری کی کیا ضرورت تھی؟ اگر نیب کو یہ ڈر تھا کہ ملک سے چلے نہ جائیں تو ای سی ایل میں نام ڈالا جا سکتا تھا، انہیں ایک دہائیوں پرانے کیس میں گرفتار کر لینا سمجھ سے باہر ہے۔

لوگ زمینوں کی خریداری کرتے ہیں، کتنے لوگوں نے لیز پر جگہ لے رکھی ہے۔ ویسے تو کسی نے باہر جانا ہو تو کون روک سکتا ہے، اس کی بڑی مثال نواز شریف کی صورت میں موجود ہے۔ اس مرحلے پر تو مجھے صرف فیض احمد فیضؔ ہی یاد آ رہے ہیں کہ

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔