21 مارچ ، 2020
حق گوئی و بیباکی کو اسلامی جمہوریہ کی شناخت ماننے والو! پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کے علمبردارو! معاشرتی اتحاد و استحکام میں ابلاغی معاونت کی اہمیت کو سمجھنے والو!
گڈ گورننس کو یقینی بنانے اور اس کے ذریعے دفاع عامہ کیلئے فلاحی مملکت کے قیام میں ابلاغ عامہ کے کردار کی حقیقت کو جاننے والو! اظہارِ رائے کی آزادی کو مطلوب سیاسی و جمہوری عمل کی حقیقت سے واقف پاکستانیو! اور آئین ہائے اقوام میں شہریوں کو آزادیٔ اظہارِ رائے کی بڑی قومی حقیقت کے شناسائو! آپ سب عقلِ سلیم کے ساتھ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کی حضرتِ انسان کو دوسری بڑی عطا اعلیٰ و ارفع انسانی ابلاغ کی حقیقت اور انسانی تہذیب کے ارتقا میں اس کے کردار کو بھی خوب سمجھتے اور مانتے ہی ہوں گے۔
گویا انسانی معاشرے کی ترقی ٔ مسلسل اور اسے حاصل جاری و ساری ابلاغی تعاون کی حقیقت کا کھلا راز آپ پر مکمل آشکار ہے۔ آپ اتنے سمجھدار، ذمہ دار، صاحبِ علم اور عاقل و بالغ پاکستانی ہیں تو آپ انسانی تہذیب کے ارتقائی عمل میں ’’ترقی و ابلاغ کے گہرے تعلق کی حقیقت‘‘ کے رازداں ہیں۔
ہماری بطور نومولود اور مسلم قوم آزمائش و امتحان کا اصل وقت تو قیامِ پاکستان کے بعد شروع ہوا، جس میں ہم اپنا کوئی مطلوبہ قد کا قائد تیار کرنے اور مسلم لیگ کو وقت کے تقاضوں کے مطابق مطلوب سیاسی قوت بنانے میں ناکام رہے۔
سیاسی عمل رکاوٹوں کے ساتھ ڈسٹرب ہوتا رہا اور سیاسی سازشوں، نااہلیت، لالچ اور خود غرضی اور انتظامی طاقت بننے کی غیرآئینی کی ہوس نے جو کچھ کھویا وہ بہت کھویا حتیٰ کہ نصف مملکت تاہم مارشل لائوں اور غیرجمہوری مزاج کی روایتی اور نااہل سول حکومتوں کے اقتدار کے باری باری کے عشروں میں پاکستان کی پابند لیکن بیباک اور جرأتمندانہ صحافت نے قوم کو ’’بند معاشرہ‘‘ نہیں بننے دیا اور قوم کے جمہوری مزاج کی پرورش اور حفاظت کڑے آمرانہ ملٹری اور سول، دونوں ادوار میں ہوتی رہی۔
یوں ملکی صحافت سیاسی قوتوں، پارلیمان، عدلیہ اور دفاعی قوتوں کے مقابل زیادہ کامیاب اور سرخرو رہی۔
پاکستانی صحافت نے اپنی مزاحمتی صلاحیت اور جتنی بھی آزادی حاصل کی وہ نہ حکمرانوں کے جمہوری دعوئوں سے کی، نہ آئینی ضمانتوں سے ملی بلکہ اپنی دنیا آپ پیدا کی۔
اور دونوں چیلنج پیشہ ورانہ آزادی اور پیشے کا فروغ خود ہی اپنی محنت شاقہ جمہوری جذبے، پروفیشنلزم، نامساعد حالات اور حکومتوں کو برہم کرتے، مزاحمت کرتے حاصل کیے۔
اس جدوجہد، محنت اور پروفیشن اور جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ نبھاتے، مختلف اخبارات، صحافتی اداروں، صحافیوں ان کی تنظیموں اور ان کی افرادی قوت اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا۔
اس میں قیامِ پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی سے 1942میں روزنامہ جنگ سے کرنٹ افیئرز سے اردو قارئین کی آگاہی کا مشن میر خلیل الرحمٰن کی ’’پاور آف وِن‘‘ سے کیا، کیونکہ یہ جنگ عظیم کا دور ہے، سو اس کی بہت تاخیر سے ہندوستان پہنچنے والی خبروں سے قارئین کو فوراً آگاہ کرنے کا اہتمام بانیٔ جنگ نے کیا وہ اپنی جنگ برصغیر کی مسلم صحافت کا اہم باب ہے۔ قیام پاکستان کی تاریخ کے آخری مرحلے میں فرنگی راج میں میر خلیل الرحمٰن نے اپنی آزادانہ صحافت پر قید بھی بھگتی۔
قیامِ پاکستان کے بعد روزنامہ جنگ نے پاکستانی صحافت کو صحافتی زبان دینے، نئی ریاستی ابلاغی ضروریات پوری کرنے، حکومت عوام اور عوام حکومت رابطے بڑھانے، دارالحکومت (کراچی) کی سرگرمیاں رپورٹ کرکے پورے ملک تک پہنچانے، پھر جدید پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی کر کے اردو صحافت کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا اور ابتدا سے ہی مخصوص سیاسی نظریاتی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ کی بنیاد پر قومی امور کے مختلف نقطہ ہائے نظر کو عوام کے سامنے لانے اور اس کے مطابق رائے عامہ کی تشکیل کا سب سے بڑا اور موثر ذریعہ بنتے ہوئے ناصرف خود سب سے بڑے قومی اخبار کی حیثیت اختیار کی بلکہ دوسرے اخبارات کو بھی قومی یکجہتی کا ایجنڈا اختیار کرنے اور پروفیشنل رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا۔
’’کٹورے پہ کٹورا، بیٹا باپ سے بھی گورا‘‘میر شکیل الرحمٰن نے میر خلیل الرحمٰن کے جانشین کے طور پر اپنے صحافتی مشن کا آغاز، بڑے میر صاحب کی حیات میں، نوعمری میں ہی جنگ کا لاہور سے اجرا کیا اور دنیائے صحافت میں بڑے قومی ’’جرم‘‘ کے مرتکب ہوئے، میں جو عملی صحافت کے نو سال چھوڑ کر پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں درس و تدریس سے وابستہ ہوا تو علم ہوا میر شکیل الرحمٰن نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت اور جنگ لاہور کا تعلق پیدا کرنے پر خصوصی توجہ مرتکز کی ہوئی تھی
یہ پیشہ صحافت کو علم ابلاغیات سے مکمل توجہ اور فراخدلی سے جوڑنے کی ملک میں پہلی، منظم اور نتیجہ خیز کاوش تھی، جس کے باعث بہت جلد، جنگ لاہور پورے پنجاب اور اس سے اوپر مکمل شمالی پاکستان کا بھی سب سے بڑا اخبار بن گیا۔ میر شکیل الرحمٰن کے اپنے آئیڈیاز اور آئیڈیاز کو عملاً ویلکم کرنے کا جذبہ و عمل باکمال تھا۔
ان کی کمال اور اچھوتی خدمت، خبری مقابلے سے ہٹ کر رائے عامہ کی تشکیل کو ایجنڈے میں اہمیت دینا ملک و قوم کیلئے بےپناہ مفید ثابت ہوا۔ ’’جنگ فورم‘‘ کا قیام ان کا اپنا آئیڈیا تھا جس پر ملک کے نامور صاحب الرائے و علوم و فنون کے ماہرین اور نامور سیاستدانوں کو بلا کر حالات حاضرہ کے موضوعات پر قومی سطح اور اعلیٰ معیار کا مکالمہ کیا جاتا جس میں ہر طرف کا نکتہ نظر اور دلائل عوام کے سامنے آ جاتے اور رائے عامہ کی معیاری تشکیل کا ایک بڑا ذریعہ ایسا بنا کہ ہر اخبار اپنے تئیں اس کی تقلید کرنے لگا۔
پھر ادارتی صفحے کو ایک مستقل اور حکومتوں سیاسی جماعتوں، عوام، اپوزیشن سب ہی کیلئے رہنمائی اور خود کی کپیسٹی بڑھانے کا مسلسل ذریعہ بنا دیا۔
کالم نویسی کو چار چاند لگ گئے اور عوام الناس تک کی تجزیاتی صلاحیت میں اضافہ ہونے لگا۔ جنگ ٹرینڈ سیٹر بن گیا اور اس کی اس پالیسی نے دوسرے اخبارات میں دائیں بائیں کی شدت کو کم کر کے، قومی اور عوامی ایجنڈے کو اہمیت دینا شروع کی۔
ٹیکنالوجی کی اختیاریت میں جنگ، لاہور میں کمپیوٹر کی کمپوزنگ کو جلد سے جلد کامیاب کر کے اختیار کرنے میں میر شکیل الرحمٰن نے بڑی جان کھپائی اور اتنے کامیاب ہوئے کہ اردو صحافت میں یہ انقلاب آفریں تبدیلی ثابت ہوئی اور پورے ملک کے صحافتی ادارے اس کے بینی فشری بنے۔ (جاری)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔