31 مارچ ، 2020
افغان جہاد کے دوران، میں جنگ میں تسلسل سے اِس موضوع پر کنٹری بیوٹ کر رہا تھا، ادارتی صفحہ اس موضوع پر سب سے بڑے قومی مباحثے کا فورم بن گیا تھا، جنگ فورم ایک الگ امتیازی فیچر تھا۔ یہ سب کچھ میر شکیل الرحمٰن کی جواں سال ادارتی قیادت میں ہی ہو رہا تھا۔
گورنمنٹ کالج کے نامور ماہرِ اقبالیات پروفیسر مرزا منور نے ایک روز مجھے بلا کر کہا کہ میری ایک شکایت میر صاحب تک پہنچاؤ کہ اخبار کا فلاں نمائندہ افغان مہاجرین کے خلاف مسلسل مبالغہ آمیز خبریں بھیج رہا ہے، اس کی تصدیق کرائیں کہ یہ سب کچھ ایسا ہے یا یہ کوئی سیاسی مشن ہے۔ میں نے کہا، آپ ان سے ملاقات کر کے خود ہی یہ مدعا پہنچائیں تو بہتر ہے، میں ملاقات کا انتظام کر دیتا ہوں۔
ملاقات ہوئی، میر صاحب نے ایک پروفیشنل رسپانس دے کر پروفیسر صاحب کو تو مطمئن کیا ہی، لیکن انہوں نے ان کی افغان جہاد پر نصف گھنٹے کی گفتگو سن کر کہا کہ اتنا ہی کیوں، منصوری صاحب، آپ اس پر بہت لکھ رہے ہیں، کیوں نہ ہم جنگ لاہور کی جانب سے اس پر ایک بڑی عالمی کانفرنس کرائیں جس میں سب نقطہ نظر کھل کر آئیں اور مفصل رپورٹ سے سب کچھ سامنے آئے۔
وہیں فیصلہ ہوا، کمیٹی بنی، مجھے کہا کہ آپ نے یہ سارا کام کرنا ہے، میں آپ کے ساتھ جاوید جمال ڈسکوی (مرحوم) کو کمیٹی اور اپنے مابین کوآرڈینیٹر بنا رہا ہوں۔ اور پھر لاہور کے واپڈا آڈیٹوریم میں افغان جہاد پر تین روزہ سب سے بڑی تاریخی کانفرنس جو عالمی اور ملکی حوالے سے پورے عشرے میں سب سے وسیع البنیاد تھی، منعقد ہوئی۔ افغان مہاجرین کے خلاف لیفٹ کے پروپیگنڈا کا خاتمہ تو اس کا ایک ثانوی نتیجہ ثابت ہوا۔ اس کے دور رس نتائج نکلے۔
کتنے ہی ممالک کے افغان اسکالرز، افغان مجاہدین کے مرکزی لیڈر، زیڈ اے سلہری، ایم ایم عالم جیسے کٹر پاکستانی‘ لیفٹ کے قومی رائے عامہ کے خلاف دلائل کو ڈی فیوژ کرنے کیلئے تیر بہدف ثابت ہوئے۔ دنیا بھر سے آئے اسکالرز نے دیکھا کہ پاکستانی میڈیا اس عالمی موضوع پر کتنا بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔
کاش! اس کانفرنس کے فوری اور دور رس نتائج کو بذریعہ سائنٹفک تحقیق ثابت کیا جاتا لیکن اس سے پاکستان کا امیج عالمی سیاسی حلقوں میں بہت بلند ہوا۔ افغان جہاد کے پاکستان پر کچھ منفی ثانوی اثرات بھی مرتب ہوئے لیکن اس کا سب سے بڑا اور انقلابی نتیجہ سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں کی صدیوں کی غلامی سے آزادی، مشرقی یورپ کے سب سے بڑے جیل خانے کا کھل جانا اور دیوارِ برلن کا انہدام نکلا۔
پاکستان کے اس کردار کو مغرب کے اسکالرز کبھی کھل کر ریکارڈ پر نہیں لائے، نتائج دیکھ کر اتنے محوِ حیرت ہوئے کہ فوراً اس کے تجزیاتی اینگل بڑی علمی بددیانتی سے تبدیل کرنا شروع کر دیے۔
وزیراعظم عمران خان اور چیئرمین نیب کی معلومات کیلئے، شکیل صاحب کی ہدایت پر اس سہ روزہ عالمی کانفرنس کا دس بارہ کواٹر پیج کے اشتہار صفحہ اول پر شائع ہوئے جس کا عنوان تھا افغان باقی کہسار باقی، الحکم للہ الملک للہ۔ اسی تاریخ کو پھر افغانوں نے دہرایا ہے اور آج پھر پاکستان کے کردار کو قابضین اور ساری دنیا خراج تحسین پیش کر رہی ہے اور میر شکیل الرحمٰن ’’نیب‘‘ کے سیل میں آزادیٔ صحافت کا ایک اور باب لکھ رہے ہیں۔
یہ جو تجزیہ اب بڑی شدت سے ہوتا ہے کہ پاکستان کی سوویت جارحیت کے دوران افغان پالیسی اپنے نتائج کے اعتبار سے غلط ثابت ہوئی، انتہا کا سطحی اور یکسر چند ثانوی نتائج کی بنیاد پر ہے، اس کے یقیناً کچھ منفی نتائج نکلے لیکن اتنے اور ایسے نہیں، جیسے مبالغہ آمیزی سے بیان کرکے تاریخ مسخ کی جاتی ہے۔ ان گمراہ تجزیوں نے نئی نسل کو منفی طور پر متاثر بھی کیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی ایک تو بین الاقوامی امداد آنے اور پاکستان کو، پاکستانی پالیسی کی تائید میں سوویت جارحیت کے خلاف بیس کیمپ بنانے سے پہلے اختیار کی جا چکی تھی، جس میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنا، انہیں پناہ دینا اور افغان عوام کی جارحیت کے خلاف سفارتی و سیاسی امداد بھی نمایاں فیچر تھے۔ یوں یہ ’’بیس کیمپ‘‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ڈیزائنڈ نہ تھا، اسے اس کی وسعت کے ساتھ ساتھ خود پاکستان نے اپنے تمام اور وسیع تر قومی مفادات کو ناپ تول کر تیار کیا تھا، اس کے نتیجے میں اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے اور ’’ایٹمی جاری پروگرام سے سوویت جارحیت سے پہلے کے ہائی ڈگری سفارتی و سیاسی امریکی پریشر کو کم تر کرنے‘‘ کی صورت بنی جس کا تیز تر اور بھرپور فائدہ اٹھا کر فوجی حکومت نے ایٹمی پروگرام کو بڑی حکمت سے تکمیل تک پہنچایا۔
یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ملکی سیاسی امور میں ضیاء الحق کی مخالفت کا بڑا دباؤ دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے بھی شروع ہو گیا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان، ملک قاسم، مولانا شاہ احمد نورانی، جمعیت اہلحدیث کا ایک دھڑا، حتیٰ کہ جماعت اسلامی میں بھی ایک سیکشن ضیاء الحق کا تیزی سے مخالف ہو چکا تھا، ایم آر ڈی کی تحریک اس کا حاصل تھا۔ لیفٹ جماعتوں، لابیز اور پی پی کا مخصوص دھڑا ہی نہیں، اصغر خان، مولانا نورانی تک بھی، پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قائدین کا وفد کابل بھیجنے اور سوویت کٹھ پتلی حکمران ببرک کارمل سے ملاقات کا اصرار کرنے لگے تھے۔ جس کی راہ بڑی محنت سے باچا خان کے پیرو کاروں نے تیار کی تھی اور پاکستانی لیفٹ طبقہ ان کے ساتھ تھا، بینظیر نے البتہ چپ سادھ لی تھی۔
افغان مجاہدین کا اتحاد اس پر گہری تشویش میں مبتلا ہو گیا، کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان کے عوام اور مسلم ممالک سے آئے مجاہدین ہی بیس کیمپ کی اصل بیس تھے نہ کہ امریکہ۔ یہ وہ وقت تھا جب جنگ کی انٹرنیشنل افغان کانفرنس کے نتیجے میں خود جنگ کی اپنی پالیسی حکومتِ پاکستان کی پالیسی اور وسیع تر رائے عامہ سے ہم آہنگ ہو چکی تھی۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ جس وفد کو کابل بھیجنے کی تیاری ہو رہی تھی، جمعیت علمائے پاکستان کو اسے جواب دینا پڑا، حالانکہ خود مولانا نورانی اس کیلئے تیار تھے جبکہ جنگ میں مسلسل خبروں اور تجزیوں نے مولانا عبدالستار نیازی اور ان کی جانب مائل کتنے ہی پارٹی رہنمائوں کو مولانا عبدالستار نیازی کی جانب کر دیا اور پارٹی شوریٰ نے وفد سے لاتعلقی ظاہر کرکے اس دورے کی روح کو ہی ختم کردیا۔ اس ساری کشمکش میں پاک افغان پالیسی کی معاونت کی کہانی بہت طویل ہے، وہ پھر کبھی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔