14 اپریل ، 2020
آپ تحریک انصاف کے وابستگان پر جو چاہے تنقید کریں لیکن ایک بات کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ پائیں گے کہ یہ نوجوان ہر حالت میں اپنا ’’منجن‘‘ بیچنے کے فن سے نہ صرف بخوبی آشنا ہیں بلکہ ’’بیانیہ فروشی‘‘ کی ایک نئی جہت اور منفرد انداز متعارف کروانے کا کریڈٹ بھی انہی سرفروشوں کو جاتا ہے۔
یہ چاہیں تو آگ کو کاغذ سے ڈھانپ دیں، بادِ صر صر کو صبا، راہزن کو رہنما، ظلمت کو ضیا، سورج کو دیا، وبا کو شفا، کرگس کو ہما، بندے کو خدا، ستم کو کرم، پتھر کو گہر، قاتل کو مقتول اور گوبر کو گلقند ثابت کردیں۔
جب کبھی رسوائی اور جگ ہنسائی کا بدترین موقع آتا ہے اور تاک میں بیٹھے سیاسی مخالفین فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ منجھے ہوئے کھلاڑی پانسہ پلٹ دیتے ہیں اور ابتلا و آزمائش کی اس گھڑی میں بھی امید کا کوئی ایسا جزیرہ ڈھونڈ لیتے ہیں کہ جہاں خوابوں کا نیا جہان آباد کیا جا سکے۔
آپ چینی اور آٹا اسکینڈل کی مثال لے لیں۔ ماضی میں جب کبھی کسی حکومت کے وزیروں یا مشیروں کی طرف سے بدعنوانی کی خبر آتی تھی تو ان کے ترجمان منہ چھپاتے پھرتے تھے اور دفاعی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے میڈیا کے تندوتیز سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کیا کرتے۔ ایف آئی اے کی حالیہ رپورٹ لیک (بقول افضل چن) ہونے پر لوگ یہی توقع کر رہے تھے کہ خجالت و شرمندگی سے عرق آلود چہروں کیساتھ عوام اور میڈیا کا سامنا کرنا دشوار ہو جائے گا مگر ہونہار ’’بیانیہ فروشوں‘‘ نے داد و تحسین کے ایسے ڈونگرے برسائے کہ سیاسی مخالفین کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم نے شوگر مافیا کے آگے جھکنے سے انکار کردیا اور دھمکیوں کے باجود رپورٹ جاری کردی۔ ابھی اس مبینہ جرأت و بہادری پر قصیدہ گوئی کا سلسلہ جاری تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ’’کڑے احتساب‘‘ کا آغاز کردیا گیا۔ جہانگیر ترین کو اس عہدے سے ہٹا دیا گیا جو کبھی انہیں دیا ہی نہیں گیا تھا کیونکہ سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے باعث وہ کسی عوامی عہدے پر متمکن نہیں ہو سکتے۔ خسرو بختیار کو تو اس سے بھی کہیں سخت سزا دی گئی ،ان سے فوڈ سیکورٹی کا قلمدان واپس لیکر اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنادیا گیا۔
احتساب کی اس طوفانی لہر نے بیچ منجدھار ہچکولے کھاتے بابر اعوان اور اعظم سواتی کی یاوری کی اور دونوں کی کشتی کنارے لگا دی۔ بابر اعوان پارلیمانی امور کے مشیر بنا دیے گئے جبکہ اعظم سواتی کو نارکوٹکس کنٹرول کا وفاقی وزیر تعینات کردیا گیا۔ پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت بھی شاید یہ سوچ کر تھر تھر کانپ رہے ہوں گے انہیں بھی بطور سزا وزیر خزانہ کے منصب سے ہٹا کر وزیراعلیٰ نہ بنادیا جائے۔
اقتدار کی اس رسہ کشی میں بہاولپور سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر سمیع اللہ چوہدری کی وزارت کا کمبل چھین لیا گیا اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اب جب وزیراعلیٰ پنجاب کبھی دورے پر جائیں گے تو انہیں نہ پہچاننے والوں کو کون بتائے گا کہ ’’اماں اے اُتھاں شہباز شریف لگے اوئن‘‘۔ البتہ نفسا نفسی کے اس دور میں بھی ایک درویش صفت انسان بہت مطمئن دکھائی دیے۔ ’’وسیم اکرم پلس‘‘ مسلسل شیخ ابراہیم ذوقؔ کا شعر گنگنا تے رہے کہ
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
تکلف برطرف، اگر شوگر مافیا کے خلاف یہ رپورٹ کرنے کا کریڈٹ جناب عمران خان کو جاتا ہے کیونکہ وہی سربراہ حکومت ہیں تو پھر پاناما جے آئی ٹی رپورٹ جاری کرنے پر اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف بھی داد کے مستحق ہیں۔ تب بھی واجد ضیا جے آئی ٹی کے سربراہ تھے اور اب بھی چینی اور آٹا بحران پر تہلکہ خیز رپورٹ تیار کرنے کی تہمت انہی کے سر ہے۔
میڈیا پر سبسڈی سے متعلق بہت ہنگامہ ہوا تو محض سبسڈی لینے والوں کو مطعون کیا گیا، حالانکہ سبسڈی دینے والے حقیقی مجرم ہیں۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ اس نے سبسڈی کی مخالفت کی تو پھر یہ فیصلہ کیسے ہو گیا؟ اسد عمر کہتے ہیں کہ وہ سبسڈی کے حق میں نہیں تھے، خسرو بختیار کا دعویٰ ہے کہ وہ اجلاس میں نہیں بیٹھے۔ پنجاب کے وزیرخزانہ ہاشم جواں بخت کہتے ہیں کہ وہ سبسڈی دینے کے خلاف تھے۔
سمیع اللہ چوہدری کہہ چکے ہیں کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی سبسڈی دینے کے حق میں نہیں تھے تو پھریہ فیصلہ کیسے ہو گیا؟ ایف آئی اے کی رپورٹ کہتی ہے کہ چینی برآمد کر نے کا فیصلہ بلاجواز تھا اور اسی فیصلے کی وجہ سے چینی کا بحران پیدا ہوا۔ چینی برآمد کرنے کے فیصلے کی منظوری تو وفاقی کابینہ نے دی جس کی سربراہی خود وزیراعظم کرتے ہیں تو پھر چینی بحران کا ذمہ دار کون ہوا؟ وفاق نے سبسڈی نہیں دی، صوبوں کو کہہ دیا گیا کہ وہ چاہیں تو سبسڈی دے سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی ’’بےایمان‘‘ حکومت نے سبسڈی دینے کا فیصلہ نہیں کیا حالانکہ وہ سبسڈی دینے کا فیصلہ کرتے تو سب سے زیادہ فائدہ اومنی گروپ کو ہوتا مگر پنجاب کی ’’ایماندار‘‘ حکومت نے سبسڈی کیلئے تین ارب روپے مختص کر دیے۔ ویسے ہمارے تجزیہ کار بھی کس قدر سادہ ہیں۔ بحث اس پر ہو رہی ہے کہ جہانگیر ترین کی شوگر ملوں کو 56کروڑ، ان کے ماموں شمیم احمد کے ملکیتی المعیز گروپ کو 40کروڑ جبکہ خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار کی رحیم یار خان شوگر ملز کو 45کروڑ سبسڈی دی گئی۔
حالانکہ یہ سبسڈی تو محض وہ ’’ٹپ‘‘ ہے جو اچھی سروس کے عوض دی جاتی ہے، بل کتنا بنا، اس پر بات ہی نہیں ہو رہی۔ چینی برآمد ہونے کی وجہ سے فی کلو قیمت 55روپے سے بڑھ کر 75روپے ہو گئی مگر شوگر مل مالکان کے اخراجات میں کوئی ردوبدل نہیں ہوا۔ اب اگر جہانگیر ترین کی شوگر ملوں نے 10لاکھ ٹن شوگر پیدا کی تو بیٹھے بیٹھے 19ارب روپے اضافی کما لیے۔
رحیم یار خان شوگر ملز کی پیداوار 6لاکھ ٹن ہے تو انہوں نے 11ارب روپے اضافی اینٹھ لیے۔ ویسے کاغذوں میں جو پیداوار ظاہر کی جا تی ہے، حقیقی پیداوار اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن آپ ان دخل در معقولات کو چھوڑیں، یہ دیکھیں کس قدر بےرحم اور کڑا احتساب ہوا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔