16 اپریل ، 2020
کورونا کی عالمگیر وبا نے جب جدید ممالک کے بہترین نظامِ صحت کا دھڑن تختہ کر دیا تو ذرا تصور کریں کہ اس کے بےقابو ہونے سے پاکستان میں کیا عالم ہوگا۔
بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس بحران سے نبرد آزما ہونے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ خاص طور پر ابتدائی دنوں میں جب وائرس کو محدود رکھنے کا موقع تھا، اس کی روایتی کنفیوژن احتیاط اور تدبیر کو چیلنج کرتی دکھائی دی۔ اس کی پہلی ناکامی یہ تھی کہ اس نے جنوری اور مارچ کے درمیان وینٹی لیٹرز، ٹیسٹنگ کٹس اور دیگر حفاظتی سامان کا آرڈر نہیں دیا اور نہ ہی ملک میں ہنگامی بنیادوں پر صحت کی سہولتیں بڑھانے کی فکر کی۔
اس کے بعد یہ وائرس کو تفتان تک محدود رکھنے میں ناکام رہی۔ ہمارے مشیرِ صحت نے خود تفتان کا دورہ کیا۔ حکومت نے وہاں قرنطینہ کی سہولت کیا قائم کرنا تھی، وائرس کو پروان چڑھا کر پورے ملک میں پھیل جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ایئر پورٹس پر بھی اسی ناکامی کا سفر جاری رہا۔ اہم اداروں نے بعد میں پنجاب حکومت کو لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور کیا حالانکہ وزیراعظم اس کے خلاف تھے۔ وزیراعظم لاک ڈاؤن کی ذمہ داری اٹھا کر اس بحران میں قوم کو یکجا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
اب کئی ہفتوں کے لاک ڈاؤن کے بعد ہم پاکستان میں کچھ مثبت نتائج دیکھ رہے ہیں۔ یہاں وائرس کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح کنٹرول میں ہے؛ تاہم ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگر پھیلاؤ کی شرح میں کمی کی وجہ لاک ڈائون ہے تو دوسری طرف ٹیسٹنگ کی محدود سہولت کی وجہ سے بھی متاثرہ افراد کی اصل تعداد سامنے نہیں آ رہی۔ جہاں تک کورونا وائرس سے ہونے والی کم ہلاکتوں کا تعلق ہے تو بھی اس کی ذمہ داری ٹیسٹنگ کی کم سہولتوں پر ہے کیونکہ جب مریض کا ٹیسٹ ہی نہیں ہوا، تو کیا پتا وہ کس بیماری سے فوت ہوا۔
فی الحال کورونا کا ایک حل یہ ہے کہ وائرس کو اس حد تک پھیلنے دو تاکہ پوری قوم اس کے خلاف مجموعی طور پر قوتِ مدافعت حاصل کر لے۔ تصور یہ ہے کہ پھیلائو کی کثرت وائرس کو کمزور کر دیتی ہے۔ تاہم یہ تجربہ برطانیہ نے کیا اور وائرس کو پھیلنے دیا لیکن اُنہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ اجتماعی قوتِ مدافعت حاصل کرنے کے لیے لاکھوں جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس لیے اُنہوں نے جلد ہی اپنا راستہ بدل لیا اور لاک ڈاؤن کی طرف چلے گئے۔
ہمیں بھی یہی راہ اختیار کرنا پڑے گی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قوم کے ساتھ مخلص ہوں۔ صورتحال میں بہتری سے پہلے خدشہ ہے کہ یہ وبا بدتر صورت اختیار کرے گی۔ جب تک کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوتی، کسی نہ کسی حد تک، معاشی اور ثقافتی طور پر قابلِ عمل لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔
لاک ڈاؤن کے چار فائدے ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار سست کر دیتا ہے، عوام کی اکثریت انفیکشن سے محفوظ رہے گی، لاکھوں لوگ بیمار نہیں ہوں گے اور صحتِ عامہ کا نظام دباؤ کا شکار نہیں ہوگا۔ گویا وائرس کا پھیلاؤ سست کرتے ہوئے جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ کہ بیماری سے لڑنے اور وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے درکار انفراسٹرکچر کی تعمیر کا وقت مل جائے گا۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ وائرس سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے افراد کا ٹیسٹ کرنے، اُن سے رابطے میں رہنے والوں کا کھوج لگانے اور ضرورت پڑے تو اُنہیں قرنطینہ میں رکھنے کا موقع مل جائے گا جبکہ چوتھا فائدہ یہ کہ اس کا کوئی ممکنہ علاج دریافت ہونے تک وقت مل سکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے ماہرین تندہی سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے چند ماہ میں اس کی ویکسین دستیاب ہو جائے۔ اس لیے اگر ہم وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار کم کر لیں تو لاکھوں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
بلاشبہ لاک ڈاؤن کی بہت بھاری معاشی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے لیکن مخصوص اقدامات سے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کہیں بھی ہجوم اکٹھا نہیں ہونا چاہیے۔ احتیاطی تدابیر کے ذریعے خطرے کو کم سے کم کرتے ہوئے معاشی سرگرمیاں فعال ہونی چاہئیں۔
حکام کو پروٹوکول وضع کرنا چاہیے کہ فیکٹریاں اور بزنس کس طرح اپنے ملازموں اور گاہکوں کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔ جو فیکٹریاں اس پروٹوکول کو یقینی بنائیں، اُنہیں کام کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ جس بزنس سے وائرس کے پھیلائو کا خطرہ زیادہ ہو اُنہیں بند رہنا چاہیے لیکن دیگر کاروبار کھولنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ اس کے لیے متبادل دن رکھے جا سکتے ہیں تاکہ سڑکوں پر ٹریفک اور بازاروں میں خریداروں کا رش نہ ہو۔
جس دوران عوام قربانی دے رہے ہیں، حکومتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ معاشی بحران کے اس دور میں ہماری مالیاتی پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ کاروبار کرنے والوں، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو رقم فراہم کی جائے تاکہ وہ رقم کی کمی کی وجہ سے دیوالیہ نہ ہو جائیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہماری معاشی پالیسی کا محور اس بحران میں غریب افراد کی مدد کرنا ہو۔ غریب عوام کو نقد رقوم کی فراہمی اچھا آغاز ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔