بلاگ
Time 16 اپریل ، 2020

کرونا وائرس عالمی سازش یا ایک تلخ حقیقت

رائٹرز فوٹو

یہ وبا چین کے شہر ووہان میں نومبر میں نمودار ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق شہر ووہان کی جانوروں کی منڈی میں چمگادڑوں سے انسانوں کو لگ گئی اور آخری خبر آنے تک پوری دنیا میں تقریباً 21 لاکھ افراد اس کا شکار ہو چکے ہیں جب کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ 

بیماری تو چین سے شروع ہوئی مگر اس نے سب سے زیادہ تباہی امریکا میں مچائی ہے جہاں 6 لاکھ سے  زیادہ افراد اب تک اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں اور 28 ہزار سے زیادہ فوت ہوچکے ہیں۔ اٹلی اپنے 21 ہزار شہریوں کو دفنا چکا ہے جب کہ سپین میں 18 ہزار موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ جب سے یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی ہے تب سے ایک افواہوں کا بھونچال آیا ہوا ہے۔ ایک کہانی کے بعد دوسری کہانی گھڑی جاتی ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا نے ان کہانیوں کو پختہ کردیا ہے لہٰذا آئیے ایسے ہی کچھ سازشی مفروضوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

پہلا مفروضہ

وائرس ووہان شہر میں انسٹیٹیوٹ آف وائرلوجی جو کہ حفاظتی طریقہ کار میں لیول نمبر 4 جو کہ سب سے بہترین لیول ہے، میں تیار کیا گیا ہے۔ اس مفروضے کو مزید شہلا ملر اور سینیٹر ٹام کوٹن نے فاکس نیوز  پر رپورٹ کیا۔ اس مفروضے کو اس لیے نہیں مانا جا سکتا کہ پہلے ہی چین دنیا کی فیکٹری ہے اور ایک ایکسپورٹ کرنے والا ملک ہے۔ چین کی فیکٹریاں تب تک چلتی رہیں گی جب تک پوری دنیا سے آرڈر آتے رہیں گے۔ اگر دنیا کی معیشت لمبے عرصے کے لیے متاثر ہوتی ہے تو چین کی معیشت کوبھی دھچکا لگتا ہے۔ دنیا کی معاشی تباہی کے براہِ راست اثرات چین کی برآمدات پر پڑیں گے۔ اس لیے چین کبھی نہیں چاہے گا کہ دنیا کی معیشت بیٹھ جائے۔

دوسرا مفروضہ:

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ وائرس کو چین  اور دنیا کی آبادی کم کرنے کے لیے پھیلایا گیا ہے۔اس مفروضے کو اس لیے نہیں مان سکتے کیونکہ اس وائرس سے شرحِ اموات صرف 2.3فیصد ہیں۔ چین میں جہاں 80 ہزار سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ان میں سے صرف 3300 لوگ لقمۂ اجل بنے ہیں جب کہ اس کی اپنی آبادی  ایک ارب سے زیادہ ہے لہٰذاس اس وائرس سے دنیا کی معیشت تو تباہ ہوسکتی ہے، بہت زیادہ افراد کرونا پوزیٹو ہوسکتے ہیں مگر شرحِ اموات کم رہیں گی اور یہ طریقہ دنیا کی آبادی کو مشکلات میں ڈالنے کا سبب تو بن سکتا ہے مگر کم کرنے کا نہیں بن سکتا۔

تیسرا مفروضہ:

ایک اور مفروضہ بہت مقبول ہوا جس کے مطابق یہ ایک بائیو لوجیکل ہتھیار ہے جو امریکا نے چین کی معاشی ترقی اور 5G کی جنگ میں جیتنے کے لیے استعمال کیا۔ نومبر میں چین میں فوجیوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہوئے جن کی آڑ میں امریکی فوجی اس وائرس کو ووہان لے کر آئے تاکہ چینی فوجیوں میں پھیلائیں اور اتفاق سے خود بیمار ہوگئے۔ 

لہٰذا امریکا اس بات کو چھپانے کے لیے ان بیمار فوجیوں کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے واپس لے کر گیا مگر اس وقت تک یہ موذی وائرس کو پھیلا چکے تھے۔ اس الزام کو پہلے چینی گورنمنٹ کے اعلیٰ عہدے دار نے ٹویٹ کیا پھر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر اس مفروضے پر یقین کریں تو امریکا کی بنی ہوئی دوائی پر کون یقین کرے گا۔

 اسی کہانی کو امریکا پرست لابی نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ چین کو جب پتہ چلا کہ امریکا نے COVID-19 سے حملہ کیا ہے تو انہوں نے وائرس کی حیاتیات کو بدل دیا اور امریکا میں پھیلا دیا تاکہ اگر امریکا کے پاس ویکسین ہو تو وہ کام نہ آ سکے اور زیادہ سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہو۔

اس مفروضے کو بنانے والے اس کا اس طرح دفاع کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کے چند ہفتے بعد ہی وائرس کا ڈی این اے ٹریس ہوجائے حیاتیاتی فارمولا پتہ چل جائے اور چین بالکل ٹھیک اقدامات کرے جن میں ماسک پہننا، گھر میں مقید ہونا ہے۔ یہی نہیں، دس دنوں میں ہسپتال کھڑے کر دے ۔ چین کو اس وائرس کی بیماری کا اس طرح فائدہ ہوا کہ امریکا اور یورپ کی چین میں کمپنیوں کے حصص گر گئے جو چین نے سستے داموں خرید لیے۔ 

اس مفروضے کو نہیں مانا جا سکتا کیونکہ اگر فوجیوں کے ذریعے یہ وائرس فوجیوں کو مارنے کے لیے لایا گیا تھا تو وائرس بہت مہلک ہوتا۔ فوجی اکثر اچھی صحت کے حامل ہوتے ہیں اور یہ وائرس کم قوت مدافعت والوں پر زیادہ اثر کرتا ہے ۔ان تمام افواہوں نے نہ صرف دنیا میں لوگوں کے درمیان نفرت کے بیج بوئے ہیں بلکہ غلط انفارمیشن کرونا سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔

چوتھا مفروضہ:

ایک اور سوشل میڈیا وڈیو وائرل ہوئی جس میں کرونا کے پھیلاؤ کو5G ٹیکنالوجی سے منسلک قرار دیا جس طرح چین کے لوگ کررہے تھے تو منطق بنائی گئی کہ نومبر میں چین میں 5G کے ٹاورز لگے اور لوگ گرنے لگے اور وائرس کا شکار ہونے لگے۔ 5G کی ریڈیو فریکوینسی کی وجہ سے لوگوں میں آکسیجن لیول کم ہونے لگا۔ 

اس مفروضے کو مشہور سنگر کیری ہیلسن  جن کے 2 ملین ٹویٹر فالوورز ہیں، نے ٹویٹ کیا۔ اس کے نتیجہ میں برطانیہ میں 5G ٹاورز کو لوگوں نے حملہ کر کے توڑنا شروع کر دیا۔ اس مفروضے کو برطانیہ کی ایک ویب سائٹFull Fact (فل فیکٹ)نے غلط قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں جس کے مطابق 5G اور کرونا میں کوئی بات مشترک ہو۔

حقیقت کیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ سائنس دانوں نے اس وائرس کے ڈی این اے کو سمجھنے کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ کورونا وائرس کے خاندان کا مکمل طور پر نیا وائرس ہے جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ اس لیے اس کی نوعیت اور علاج کو تلاش کرنا دنوں کی بات نہیں ہے۔

 اس کے علاوہ یہ لیبارٹری میں نہیں بنا ہے۔ مشہور کمپنی ایل سیوئیر اور The Lancet کی ریسرچ کے مطابق یہ وائرس جانوروں سے انسانوں اور بعد میں انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ سی آئی اے کو اس وائرس کو پھیلانے کا نقصان ہی ہوسکتا ہے۔ بائیو کیمیکل ہتھیار خاص طور پر بیکٹیریا اور وائرس کنٹرول نہیں کیے جا سکتے ۔ کسی بھی ملک کو ایسا ہتھیار استعمال کرنے کا فائدہ نہیں ہو سکتا جسے وہ خود کنٹرول نہ کرسکے۔ آج چین سمیت پوری دنیا کی معیشت بیٹھ گئی ہے۔ امریکا میں تو شرح سود صفر پر آگئی ہے اور حال یہ ہے کہ 2 ٹریلین ڈالر کا معاشی پیکیج بھی ناکافی ثابت ہورہا ہے۔ اگرچہ چین نے تو وائرس پر قابو پالیا ہے مگر وہ لمبے عرصے تک پوری دنیا کی معاشی سست روی سے متاثر ہوگا۔

کورونا وائرس کووِڈ 19 وہ بھوت ہے جو ابھی تک پوری دنیا میں کسی کے قابومیں نہیں آیا ہے۔ اب ایک ہی منطق بنتی ہے کہ یہ اللہ رب العزت کی طرف سے پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بہانہ ہے۔ آج پوری دنیا ایک دوسرے کے درد میں شریک ہے۔ کائنات کے اپنے کھیل ہیں۔ جب پوری دنیا قرنطینہ کے اس دور سے نکلے گی تو ایک مختلف دنیا ہوگی۔

مدتیں ہوگئیں خطا کرتے

شرم آتی ہے اب دعا کرتے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔